ریاستہائے متحدہ امریکہ کے یوم آزادی کے موقع پر امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا اظہارِ خیال

۶ جولائی ۲۰۲۳ء – آج کی شام ہمارے ساتھ اس تقریب  میں شریک ہونے  پر آپ سب کا بہت شکریہ۔ خُصوصی طور پر  میں وزیر اعظم  پاکستان جناب محمدشہباز شریف کو خوش آمدید کہتے ہوئے   بہت  خوشی محسوس کر رہا ہوں،  جنابِ عالی ! آج کے اِس خاص موقع پر پاکستان کے عوام اور حکومت کی نمائندگی کرنے پر ہم آپ کے مشکور ہیں۔

یومِ آزادی کے موقع پر ہم خو د کو آزادی، جمہوریت اور مساوات  پر مبنی اُن امریکی اقدار کی اہمیت کی یاد دہانی کراتے ہیں جن پر ہماری قوم کی اساس ہے ۔  لیکن آج میں  اُن دو خصوصیات  پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں جن   کی ہم  ریاستہائے  متحدہ امریکہ میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور وہ ہیں ،جدت  پسندی اور مسائل کا حل تلاش کرنا۔

ہماری قوم کی  بنیاد پڑنے سے لے کر  اب تک ، امریکی ہمیشہ  راستہ   دکھانے  والے اور ہر معاملے میں اولین کردار ادا  کرنے والے رہے ہیں۔ سلیکان ویلی قائم کرنے والوں کی تخلیقی صلاحیتوں سے لیکر   وسیع تر مساوات کے حصول کے لیے جدوجہد میں مصروف سماجی انصاف کے کارکنوں تک، ہماری قوم کی تاریخ  مشکلات پرقابو پانے والی  رہی ہے۔

پاکستان  کے لیے بھی بحران درحقیقت اجنبی نہیں ، اور آج کے دور میں ہمیں درپیش  سب سے نمایاں بحرانوں میں سے زیادہ تر معاشی ترقی کی راہ تلاش کرتے ہوئے پاکستان کی آئندہ آنے والی نسلوں کی ضروریات کی تکمیل سے متعلق ہیں اور ان میں سے  ہمارے زیادہ تر موجودہ  مسائل   ٹیکنالاجی    کی شمولیت اور تجارتی طرز عمل کی وجہ سے تبدیل ہوتی ہوئی نت نئی   بین الاقوامی معاشی روایات  کا نتیجہ ہیں۔ یہ تبدیلیاں کُھلے پن، اختراع اور لچک کے اقدار کو مزید بڑہاوا دیں گی۔ ایسی صورتحال میں شراکت داری  کی اہمیت مزید بڑہ جائے گی اور ہماری پاکستان کے ساتھ شراکت داری  وسعت پذیر ہے۔ امریکہ  پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا مُلک ہے اور پاکستانی مصنوعات  کے لیے سب سے بڑی منڈی  بھی ہے۔ ہم ہر سال نو ارب ڈالر  کی باہمی تجارت  کرتے ہیں اور گزشتہ برس پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری میں پچاس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

فروری  میں ہم نے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری  لائحہ عمل معاہدہ   کے تحت  وزارتی سطح  کا اجلاس منعقد کیا، جس کے  دوران شرکاء نے  پاکستانی مصنوعات کی امریکی منڈیوں تک رسائی ، ڈیجیٹل کاروبار اور پاکستان کی   قومی ترقی میں خواتین کی شرکت یقینی بنانے  کے اُمور پر  نمایاں پیشرفت کی۔   اُس سے آگے  بھی بہت کچھ ہے، ہم اور پاکستان میں کاروبار کرنے والی امریکی کمپنیاں  پاکستان کی افرادی قوت کی تیاری  کے سلسلہ میں  سرمایہ کاری کرتےہوئے  پاکستانی  انٹر پرینوئرز اور تاجروں کی آئندہ آنے والی کھیپ کو تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ در حقیقت امریکی کمپنیاں اور اُن سے وابستہ مقامی  تجارتی ادارے پاکستان میں   روزگار فراہم کرنے والے سب سے بڑے ادارے ہیں اور ایک لاکھ بیس ہزار پاکستانی اُن میں ملازمت کرتے ہیں۔  امریکی آجروں کی  جانب  سے  دستیاب وسیع تجارتی منصوبے پاکستانی افرادی قوت کو عالمی معاشی سرگرمیوں میں مسابقت  کے قابل بناتے ہیں اور  پاکستان میں موجود شاندار صلاحیتوں کے حامل افراد کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی کمپنیاں  کاروباری شہریت، سماجی ذمہ داری، شفافیت کی عالمی علمبردار ہیں اور وہ پاکستان سمیت  جہاں پر بھی سرمایہ کاری کریں تو مذکورہ اقدار اپنے ساتھ لاتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کا بحران آج کے دور میں ہمیں  درپیش سب سے زیادہ  گمبھیر مسائل میں سے ایک ہے  اور اس حقیقت کا ادراک پاکستانیوں سے زیادہ کسی اور کو کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ  انہوں نے گزشتہ موسم  گرما میں سیلاب کی آفت  کو بھگتا ہے۔ تاہم ریاستہائے متحدہ امریکہ نے آگے قدم بڑھاتے ہوئے  سیلاب متاثرین کی معاونت اور مستقبل میں اس نوعیت کے ممکنہ سیلاب کے خطرات کی روک تھام کے لیے اکیس کروڑ پچاس  لاکھ ڈالر کی امداد کا عزم کیا ہے۔ لیکن  پاکستان اور امریکہ سمیت پوری  دنیا  پر موسمیاتی تبدیلی کے منڈلاتے خطرات  سے نمٹنے کے لیے  ہمارے دونوں ممالک  مِل جُل کرمزید  بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

میں نے حال ہی میں ایک کہاوت سُنی تھی  کہ ہمارے سفر کا ہر قدم کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔میرے  خیال میں یہ  امریکہ اور پاکستان کے درمیان شراکت کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔     زیادہ مستحکم اور خوشحال مستقبل کے حصول کی کوششوں میں پاک-امریکہ سبز اتحاد لائحہ عمل ہماری کوششوں کا محور رہے  گا۔

پاک-امریکہ سبز اتحاد لائحہ عمل  دونوں مُلکوں کے درمیان  ایسا انقلابی   قدم ہے   جو پانی کے انتظام و انصرام،  آب وہوا  کی صورتحال سے  ہم آہنگ زراعت اور قابل تجدید توانائی   پر خُصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے   کلیدی اہمیت کے حامل   ماحولیاتی مسائل   کا حل پیش کرتا ہے۔ گرین الائنس کے توسط سے ہم مستحکم، مضبوط اور منصفانہ  مستقبل   یقینی بنانے کے اہداف پر کام کر رہے ہیں۔

پاک-امریکہ  سبز اتحاد لائحہ عمل  اِن شعبوں میں ہمارے تعاون   کی درخشندہ تاریخ پر مبنی شراکت کا پیش خیمہ ہے۔ گزشتہ  بیس  سالوں کے دوران امریکہ نے پاکستان کے عوام کو براہ راست بتیس ارب ڈالر سے زیادہ  کی امداد فراہم کی ہے۔ لیکن ہماری سرمایہ کاری اس سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔  ۱۹۶۰ء  کی دہائی میں  امریکہ نے پاکستان میں "سبز انقلاب”کی حمایت  کرتے ہوئے   زرعی پیداوار میں اضافہ اور  غذائی تحفظ یقینی بنانے پر کام کیا۔   علاوہ ازیں  پاکستان کے پن بجلی کے شعبےمیں  امریکی سرمایہ کاری  مُلک کو روشن کرنے میں معاون ثابت ہوئی اور  اس سے پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع دستیاب ہوئے۔ ماضی کی مانند ہماری شراکت  نمایاں نتائج کی آئینہ دارہے۔

چند ماہ قبل ہمارے سینیئر قائدین نے اعلیٰ سطحی تحفظ   توانائی مذاکرات میں شرکت کی اور موسمیاتی اور ماحولیاتی اُمور پر  ورکنگ گروپ کا اجلاس بھی منعقد ہوا۔  یہ دونوں  مواقع پاک-امریکہ سبز اتحاد   کو وسعت دینے کے لیے کلیدی اہمیت کے حامل  تھے۔ مذکورہ اور دیگر اقدامات کے ذریعے ہم  پاکستان کے لیے ماحول دوست اور مستحکم  مستقبل کے قیام کے لیے ٹھوس  پیشرفت کر رہے ہیں۔

لیکن سبز اتحاد لائحہ عمل   موسمیاتی تبدیلیوں اور اُن کے اثرات  کے خاتمہ تک ہی محدود نہیں ، یہ   اس امر کی بھی غماز  ہے کہ ماحول دوست     تدابیر کا انتخاب  پاکستان کے لیے  وافر معاشی مواقع کی فراہمی یقینی بناتا ہے اور ان کی نجی منڈیوں میں بھی طلب ہے۔ پاک-امریکہ سبز اتحاد کے ذریعےہم  باہمی تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ،روزگار کے نئے مواقع  کی تخلیق،   صنعتوں کا قیام  اور اپنے لوگوں کو نئے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پرگرین الائنس کے تحت امریکی سرکاری  گرانٹ کے توسط سے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ  سائنسز( لمس) میں برقی توانائی سے چلنے والی  گاڑیوں کی تیاری پر تحقیقی کام  ہو رہا   ہے، جو کہ پاکستانی مارکیٹ میں فروخت کے لیے مقامی طور پر یہ گاڑیاں تیار کر ہی ہے۔ یہ قدم   ۲۰۳۰ ء تک  قابل تجدید توانائی  پر انحصار چونتیس سے  بڑھا کر ساٹھ فیصد تک کرنے کے ہدف کے حُصول میں پاکستان کامعاون ثابت ہوگا۔  یہ تو صرف آغاز ہے۔

پاکستان میں گزشتہ برس کے سیلاب سے واضح ہو گیا  کہ موسمیاتی تبدیلی  آنے والے دنوں کا خطرہ نہیں ہے بلکہ  یہ آفت اب ہم پر ٹوٹ چُکی ہے اور یہ مُلکی سرحدوں کا لحاظ نہیں رکھتی

پاکستان میں موسمیاتی بحران سے نمٹنے کی استعداد میں ترقی اور توانائی ذرائع پر انحصار میں  انقلابی تبدیلی کے خواہاں متعدد پاکستانی  قائدین ، اور تاجر برادری اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں کو میں خصوصی داد دیتا ہوں۔ گزشتہ ستمبر میں پاکستانی حکومت کا یہ اعلان میرے لیے باعث طمانیت  تھا کہ اب پاکستان  امپورٹیڈ فاسل فیول پر انحصار کرنے والے توانائی منصوبے شروع نہیں کرے گا۔  مستقبل کے حوالے سے دیکھیں تو  سبز اتحاد لائحہ عمل تین  بنیادی شعبوں میں ہمارے تعاون کا غماز بن رہا ہے۔

اُن میں سے سر فہرست یہ کہ  قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی کا عالمی رہنما ہونے کی حیثیت سے  امریکہ  فاسل فیولز پر انحصار  اور کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی  اور توانائی تحفظ میں اضافہ کے سلسلے میں  پاکستان کی معاونت کر رہا ہے۔ پاکستان سورج کی روشنی ، وسیع کُھلے میدانوں اور تیز ہواؤں سے مالامال ہے  ، یہ سب  عوامل  قابل تجدید توانائی کو  آسان اور  سستا انتخاب بنا دیتے ہیں ۔ ابھی کچھ ہفتے قبل  میں نے امریکی اعانت  سےویمن اِن انرجی اسکالرز پروگرام سے فارغ التحصیل ہونے والی پاکستانی خواتین کی دوسری کھیپ کا  استقبال کیا۔ اس پروگرام کا مقصد  پاکستان  میں توانائی کے شعبے میں خواتین کے کردار کو وسعت دینا  ہے۔

دوسرا، سبز اتحاد لائحہ عمل کے ذریعے ہم   ماحول دوست زراعت کو رواج دینے میں پاکستان کی مدد  کر رہے ہیں۔  اس ضمن میں  پنجاب اور سندھ میں کاشتکاروں کو پانی کے بہتر استعمال کے سلسلے میں  دو کروڑ ڈالر کی اعانت فراہم کی گئی ہے اور ہم فصلوں کی پیداوار میں  دس فیصد اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں  خشک سالی کے اثرات سے محفوظ  فصلوں کے بیج کی تیاری  جیسی  ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری  کے حوالے سے مشترکہ کوششوں پر توجہ مرکوز  رکھنی چاہیے، ان سے ماحولیاتی خطرات میں کمی اور پیداوار میں  بہتری آتی ہے۔

آخر میں، ریاستہائے متحدہ امریکہ نے کئی دہائیاں قبل پاکستان میں  اہم آبی ذخائر اور پن بجلی کی تیاری کے ذرائع کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا تھا۔  ہم پانی کے انتظام و انصرام کے شعبوں میں مستقبل میں بھی پاکستان کے شانہ بہ شانہ  کام کرنے کی امید کرتے ہیں۔ امریکہ نے پینے کے صاف پانی تک رسائی میں اضافہ کرنے، پانی کے انتظامات میں بہتری لانے اور ذخیرہ اندوزی میں وسعت  پیدا کرنے کے سلسلے  میں پاکستان کے ساتھ شراکت کی ہے۔

یہاں یہ  امرقابل ذکر  ہے کہ مذکورہ اقدامات کاروبار دوست اور ضوابط پر مبنی ایسے  ماحول کو یقینی بنائے بغیر ممکن  نہیں جس میں  سرمایہ کارو ں کو  اپنا سرمایہ سرکاری پیسوں کے ساتھ  لگانے کا اعتماد حاصل  ہو۔  اس کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلی معیشت میں خواتین کی مکمل شرکت کی بھی متقاضی  ہے۔ پاک-امریکہ سبز اتحاد لائحہ عمل کے ذریعہ  امریکہ پاکستان میں ماحول دوست معیشت  کی عکاس اصلاحات  کی حمایت  کے عزم پر کاربند ہے۔

اگر ہم امریکہ اور پاکستان کی پچہترسالہ  دوستی کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اپنی کامیابیوں پر فخر ہونا چاہیے۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں  سبز انقلاب  لانے سے لیکر موجودہ دورمیں پاک-   امریکہ  سبز اتحاد لائحہ عمل کے قیام تک ہم نے ایک  ایسی  شراکت  داری تشکیل دی ہے جو  ہر دور   میں   متعدد بحرانوں سے گزرتے ہوئے مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔  اگر ہم صرف گزشتہ سال ہی کو دیکھیں تو وہ پاک-امریکہ تعلقات میں وسعت    لانے کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ اس عرصے میں ہم صحت،   دفاع اور انسداد دہشتگردی کے امور پر  نتیجہ خیز مذاکرات  میں مصروف رہے، جن کی  بدولت  درپیش مشترکہ خطرات کے خلاف   ہماری باہمی کوششوں  کی صلاحیتوں  میں اضافہ ہوا ہے۔

آج میں آپ  کو کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ  کا یومِ آزادی اور دونوں مُلکوں اور قوموں کے تعلقات  کا جشن منا تے ہوئے اپنے آس پاس موجود معلوماتی  نمائشوں پر  غور کرنے  ترغیب دیتا  ہوں ،  کہ کس طرح گرین الائنس سمیت متعدد طریقوں سے امریکی مشن پاکستان میں ماحولیات اور ماحول دوست معیشت  کی ترویج  میں معاونت کر رہا ہے۔

آج کی شام ہمارے ساتھ شرکت کا ایک بار پھر شکریہ ۔