شکریہ
میں شاہ سلمان کی غیرمعمولی باتوں اور آج کی کانفرنس کے انعقاد پر سعودی عرب کی شاندار سلطنت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس قدر مہربان میزبانوں کی جانب سے اپنا استقبال میرے لیے عزت افزائی کا باعث ہے۔ میں نے آپ کے ملک کی شان و شوکت اور یہاں کے لوگوں کی مہربانی کے بارے میں ہمیشہ سنا تھا مگر اس حیرت انگیز جگہ کا جاہ و جلال اور ناقابل یقین میزبانی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا جس کا مظاہرہ آپ نے ہماری یہاں آمد کے بعد کیا ہے۔
آپ نے سلطنت کے بانی شاہ عبدالعزیز کے دولت کدے پر بھی میری میزبانی کی جنہوں نے اس ملک کے عظیم لوگوں کو متحد کیا تھا۔ امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ جیسے ایک اور محبوب رہنما کے ساتھ کام کرتے ہوئے شاہ عبدالعزیز نے ان دونوں ممالک میں مستقل شراکت کا آغاز کیاتھا۔
شاہ سلمان! آپ کے والد آپ کو اپنی میراث آگے بڑھاتا دیکھ کر بے حد فخر محسوس کرتے اور جیسا کہ انہوں نے ہماری شراکت کا پہلا باب کھولا تھا اسی طرح آج ہم ایک نئے باب کا آغاز کر رہے ہیں جو ہمارے شہریوں کے لیے دیرپا فوائد کا باعث ہو گا۔
م یں آج یہاں آنے والے تمام معزز سربراہان ریاست کے لیے دل کی گہرائیوں سے ممنونیت کا اظہار کرتا ہوں۔ آپ نے اپنی موجودگی سے ہمیں بے حد عزت بخشی اور میں اپنے ملک کی جانب سے آپ کا بے حد مشکور ہوں۔ مجھے علم ہے کہ ہمارا اکٹھا ہونا آپ کے اور میرے عوام کے لیے بہت سے فوائد کا باعث ہو گا۔
میں امریکی عوام کے نمائندے کی حیثیت سے آپ کے سامنے دوستی اور امید کا پیغام دینے کے لیے کھڑا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے پہلے غیرملکی دورے کے لیے مسلم دنیا کے مرکز اور ایسے ملک کا انتخاب کیا جو اسلامی عقیدے کے دو مقدس ترین مقامات کا نگہبان ہے۔
میں نے امریکی عوام سے اپنے افتتاحی خطاب میں امریکہ کی قدیم ترین دوستیاں مضبوط بنانے اور امن کے لیے نئی شراکتیں قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ میں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ امریکہ اپنا طرز زندگی دوسروں پر تھوپنے کی کوشش نہیں کرے گا بلکہ ہم تعاون اور اعتماد کے لیے اپنے ہاتھ پھیلائیں گے۔
اس خطے میں اور پوری دنیا میں امن، سلامتی اور خوشحالی ہمارا خواب ہے۔
ہم اقوام کا ایک ایسا اتحاد چاہتے ہیں جس کا مشترکہ مقصد انتہاپسندی کو ختم کرنا اور اپنے بچوں کو پرامید مستقبل دینا ہے۔
اسی لیے عالمی رہنماؤں کا یہ تاریخی اور بے مثل اجتماع دنیا کے لیے ہمارے مشترکہ عزم اور ہمارے باہمی احترام کی علامت ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ میں پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ میں آج یہاں موجودہ ہر ملک کے رہنماؤں اور شہریوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ امریکہ دوستی، سلامتی، ثقافت اور تجارت کے قریبی رشتے قائم کرنے کا خواہاں ہے۔
امریکیوں کے لیے یہ پرجوش موقع ہے۔ ہمارا ملک امید کے ایک نئے جذبے سے سرشار ہے۔ چند ہی ماہ میں ہم نے قریباً دس لاکھ نئی نوکریاں پیدا کی ہیں، آمدنی میں تین کھرب ڈالر سے زیادہ اضافہ کیا ہے، امریکی صنعت پر بوجھ میں کمی لائے ہیں اور اپنی فوج پر ریکارڈ سرمایہ کاری کی ہے جو ہمارے لوگوں کی سلامتی کا تحفظ کرے گی نیز ہمارے شانداردوستوں اور اتحادیوں کی سلامتی بھی بہتر بنائے گی جن میں بہت سے آج یہاں موجود ہیں۔
اب مجھے آپ کو بہت ہی اچھی خبر سے آگاہ کر کے خوشی ہو گی۔ شاہ سلمان، ولی عہد اور نائب ولی عہد کے ساتھ میری ملاقاتیں انتہائی گرمجوشی، خیرسگالی اور بے پایاں تعاون کے جذبے سے معمور رہیں۔
گزشتہ روز ہم نے مملکت ِسعودی عرب کے ساتھ تاریخی معاہدے کیے جن کے تحت دونوں ممالک میں قریباً 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی اور امریکہ و سعودی عرب میں ہزاروں نوکریاں پیدا ہوں گی۔
باہمی تعاون میں سنگ میل کی حیثیت رکھنے والے اس معاہدے میں سعودی عرب کی جانب سے 110 ارب ڈالر کے دفاعی سازوسامان کی خریداری بھی شامل ہے اور ہم اس ضمن میں اپنے سعودی دوستوں کا بہترین امریکی دفاعی کمپنیوں کے ساتھ اچھا سودا یقینی بنائیں گے۔ اس معاہدے سے سعودی فوج کو دفاعی کارروائیاں بہتر انداز میں انجام دینے میں مدد ملے گی۔
ہم نے آج یہاں موجود بہت سے ممالک کے ساتھ شراکت داری مضبوط بنانے، نئے اشتراک کار بنانے اور مشرق وسطیٰ و دیگر خطوں میں سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے بات چیت کا آغاز بھی کیا ہے۔
آج ہم انتہاپسندانہ فکر کے مقابلے کا عالمگیر مرکز قائم کر کے ایک مرتبہ پھر تاریخ رقم کریں گے جو یہاں اسلامی دنیا کے مرکز میں ہو گا۔ یہ مرکز واضح پیغام دیتا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک کو انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا اور میں اس موثر قائدانہ مظاہرے پر شاہ سلمان سےاظہار ِتشکرکرنا چاہتا ہوں۔ میں آج یہاں موجود بہت سے رہنماؤں کا وائٹ ہاؤس میں خیرمقدم کر چکا ہوں اور آپ سب کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہوں۔
امریکہ ایک خودمختار ملک ہے اور اپنے شہریوں کی سلامتی اور تحفظ ہمیشہ ہماری پہلی ترجیح رہی ہے۔ ہم یہاں لیکچر دینے نہیں آئے، ہم دوسروں کو یہ بتانے یہاں نہیں آئے کہ انہیں زندگی کیسے گزارنی چاہیے، کیا کرنا چاہیے، کیا ہونا چاہیے اور عبادت کیسے کرنی چاہیے۔ اس کے بجائے ہم یہاں شراکت داری کی پیشکش لائے ہیں جس کی بنیاد مشترکہ مفادات اور اقدار پر ہو گی جس کا مقصد ہم سب کے لیے اچھے مستقبل کا حصول ہے۔
یہاں اس کانفرنس میں ہم اپنے بہت سے مشترکہ مفادات پر بات چیت کریں گے۔ مگر سب سے پہلے ہمیں ایک ہدف کے حصول کے لیے بہرصورت متحدہ ہونا ہے جو کہ دوسری تمام باتوں پر بھاری ہے۔ یہ ہدف تاریخ کے عظیم ترین امتحان میں کامیابی یعنی انتہاپسندی پر فتح پانا اور دہشت گردی کی قوتوں پر غالب آنا ہے۔
مسلمان لڑکے لڑکیوں کو خوف سے آزاد، تشدد سے محفوظ اور نفرت سے پاک حالت میں پھلنا پھولنا چاہیے۔
مسلم نوجوانوں کو اپنے اور اپنے لوگوں کے لیے خوشحالی کے نئے دور کا آغاز کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔
خدا نے چاہا تو یہ کانفرنس ان عناصر کے خاتمے کا آغاز ہو گی جو دہشت گردی کا ارتکاب کرتے اور اس نفرت انگیز فکر کے پرچارک ہیں۔ اس کے ساتھ ہماری دعا ہے کہ یہ خصوصی اجتماع کسی دن مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں امن کے آغاز کے طور پر یاد رکھا جائے۔
مگر ایسا مستقبل صرف دہشت گردی اور اس کا محرک بننے والی فکر کو شکست دے کر ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
بہت کم ملک اس سوچ کی پرتشدد کارروائیوں سے محفوظ ہیں۔
امریکہ نے ۱۱ستمبر کی سفاکیت سے لے کر بوسٹن بم دھماکوں اور سان برنرڈینو سے اورلینڈو تک ہلاکتوں کے واقعات کی صورت میں مسلسل وحشیانہ حملوں کا سامنا کیا ہے۔
یورپی اقوام نے بھی ناقابل بیان دہشت بھگتی ہے۔ اسی طرح افریقہ حتیٰ کہ جنوبی امریکہ کا بھی یہی حال ہے۔ انڈیا، روس، چین اور آسٹریلیا بھی دہشت گردی کے متاثرین میں شامل ہیں۔
تاہم اگر خالصتاً اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو عرب، مسلم اور مشرق وسطیٰ کے معصوم عوام سب سے بڑی تعداد میں دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ انہوں نے ہلاکتوں اور جنونی تشدد کی اس لہر میں بدترین تباہی دیکھی ہے۔
بعض اندازوں کے مطابق دہشت گردی کے 95 فیصد سے زیادہ متاثرین مسلمان ہیں۔
اب ہمیں اس خطے میں انسانی مصائب اور سلامتی کے حوالے سے تباہ کن صورتحال کا سامنا ہے جو پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ یہ بہت بڑی تباہی ہے اور اس سے جنم لینے والے مصائب اور محرومیوں کا الفاظ میں احاطہ ممکن نہیں۔
داعش، القائدہ، حزب اللہ، حماس اور بہت سی دوسری تنظیموں کے ہاتھوں ہونے والے نقصان کو ان کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تعداد سے نہیں ماپا جانا چاہیے بلکہ اس نقصان کو کئی نسلوں کے معدوم ہوتے خوابوں کی صورت میں بھی گنا جانا چاہیے۔
مشرق وسطیٰ قدرتی حسن، رنگا رنگ ثقافتوں اور بہت بڑے تاریخی ورثے سے مالا مال ہے۔ اسے دنیا میں تجارت اور مواقع کا مرکز بننا چاہیے۔
یہ خطہ کوئی ایسی جگہ نہیں ہونی چاہیے جہاں سے مہاجرین نقل مکانی کرتے ہیں بلکہ دوسری دنیا سے لوگوں کو اس خطے کا رخ کرنا چاہیے۔
دنیا کے عظیم ترین مذاہب میں ایک کے مقدس ترین مقامات سعودی عرب میں واقع ہیں۔ ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان حج کے لیے سعودی عرب آتے ہیں۔ یہ ملک ناصرف قدیم بلکہ جدید عجائبات کا مرکز بھی ہے ،جس میں تعمیراتی میدان میں اس کی اعلیٰ کامیابیاں بھی شامل ہیں۔
ہزاروں سال پہلے مصر علم اور ترقی کا پھلتا پھولتا مرکز تھا۔ اس وقت دنیا کے دوسرے حصوں کو یہ مقام حاصل نہیں ہوا تھا۔ گیزہ ، لوکسر اور سکندریہ کے عجائبات اس قدیم ورثے کی قابل ِفخر یادگاریں ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ اردن کے پیٹرا کھنڈرات دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ عراق تہذیب کا گہوارہ اور فطری حسن کی سرزمین تھا۔ متحدہ عرب امارات نےشیشے اورفولاد میں جدت کی ناقابل یقین بلندیوں کو چھوا اور زمین وپانی کو فن کے قابل دید نظاروں میں بدل دیا۔
یہ تمام خطہ نہر سوئز، بحیرہ قلزم اور آبنائے ہرمز جیسے اہم سمندری تجارتی راستوں کا مرکز ہے۔
اس خطے کے امکانات اس قدر روشن کبھی نہیں رہے۔ یہاں کی 65 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ تمام نوجوان مردوخواتین کی طرح یہ بھی شاندار مستقبل کی تعمیر، بڑے بڑے قومی منصوبہ جات میں شمولیت اور اپنے خاندانوں کے لیے گھر چاہتے ہیں۔
مگر اس خونریزی اور دہشت گردی نے ان خفتہ صلاحیتوں اور بے پایاں امید کی راہ روک دی ہے۔ اس تشدد کے ساتھ زندگی بسر کرنا ممکن ہی نہیں۔
اسے برداشت کرنا، اسے قبول کرنا اور اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
جب بھی کوئی دہشت گرد کسی معصوم کی جان لیتا اور غلط طور سے خدا کا نام پکارتا ہے تو یہ کسی بھی عقیدے کے حامل ہر انسان کی توہین تصور ہونی چاہیے۔ دہشت گرد خدا کی عبادت نہیں کرتے بلکہ وہ موت کے پجاری ہیں۔
اگر ہم اس منظم دہشت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتے تو ہمیں اس کا انجام معلوم ہے۔ ایسے میں دہشت گردی کے ہاتھوں زندگی کی تباہی جاری رہے گی۔ پرامن معاشرے تشدد کے شعلوں کا شکار ہو جائیں گے اور بہت سی نسلوں کا مستقبل افسوناک انداز میں ضائع ہو جائے گا۔ اگر ہم ان ہلاکتوں کے خلاف باقاعدہ طور سے کھڑے نہیں ہوتے تو پھر ہمارا فیصلہ ہمارے لوگ یا تاریخ نہیں بلکہ خدا کرے گا۔
یہ مختلف مذاہب، فرقوں یا مختلف تہذیبوں کی جنگ نہیں ہے۔ یہ انسانی زندگی ختم کرنے والے وحشی مجرموں اور اور تمام مذاہب کے مہذب لوگوں کی جنگ ہے جو زندگی کا تحفظ چاہتے ہیں۔ یہ نیکی اور بدی کی جنگ ہے۔
جب ہم دہشت گردی کے نتیجے میں تباہی کے مناظر دیکھتے ہیں تو ہمیں کہیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ مقتولین یہودی تھے یا عیسائی، شیعہ تھے یا سنی۔ جب ہم قدیم سرزمین کو معصوم خون سے تربتر دیکھتے ہیں تو ہمیں ان متاثرین کا عقیدہ، فرقہ یا قبیلہ دکھائی نہیں دیتا۔ ہمیں صرف یہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ خدا کے بندے تھے جن کی اموات ہر مقدس شے کی توہین ہے۔
مگر اس برائی پر قابو پانے کے لیے اچھائی کی قوتوں کا متحد و مضبوط ہونا ضروری ہے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ یہاں موجود ہر شخص اس کام میں اپنا جائز حصہ ڈالے اور اپنے حصے کا بوجھ اٹھائے۔ دہشت گردی دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔ مگر امن کا راستہ یہاں سے اس قدیم اور مقدس سرزمین سے شروع ہوتا ہے۔ مشترکہ مفادات اور مشترکہ سلامتی کے لیے امریکہ آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہے۔
تاہم مشرق وسطیٰ کے ممالک کو اس دشمن کا سر کچلنے کے لیے امریکہ کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ مشرق وسطیٰ کی اقوام کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ اپنے، اپنے ممالک اور اپنے بچوں کے لیے کون سا مستقبل چاہتی ہیں۔ یہ دو قسم کے مستقبل کے درمیان انتخاب کا معاملہ ہے۔ امریکہ آپ کے لیے یہ انتخاب نہیں کر سکتا۔
اچھا مستقبل اسی صورت ممکن ہے اگر آپ کی اقوام دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کو اپنے سماج سے باہر نکال پھینکیں۔ انہیں اپنی عبادت گاہوں، اپنے معاشروں، اپنی مقدس سرزمین اور اس کرہ ارض سے نکال باہر کریں۔
جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو امریکہ بڑھتے ہوئے خطرات اور نئے حقائق کا مقابلہ کرنے کے لیے حالات کے مطابق حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم بے فائدہ حکمت عملی ترک کر دیں گے اور تجربے و اندازے کی بنیاد پر نئے طریقہ ہائے کار سے کام لیں گے۔ ہم اصولی حقیقت پسندی اختیار کر رہے ہیں جس کی جڑیں مشترکہ اقدار اور مشترکہ مفادات میں پیوست ہیں۔
ہمارے دوستوں کو ہماری معاونت اور ہمارے دشمنوں کو ہمارے عزم پر کوئی شبہ نہیں ہو گا۔ ہمارے شراکت دار بنیادپرستانہ تباہی کے بجائے استحکام کے ذریعے سلامتی کی صورتحال بہتر بنائیں گے۔ ہم بے لچک نظریے کے بجائے حقیقی دنیا کے ماحصل کی بنیاد پر فیصلے لیں گے۔ ہم کٹر سوچ کے محدودات سے نکل کر تجربے کے اسباق سے رہنمائی حاصل کریں گے اور اچانک اقدامات کے بجائے جہاں ممکن ہوا بتدریج اصلاحات سے کام لیں گے۔ ہمیں کاملیت کے بجائے شراکتیں درکار ہیں اور ہمیں ان سب کو اپنا اتحادی بنانا ہے جن کے مقاصد ہم جیسے ہیں۔ امریکہ جنگ نہیں بلکہ امن کا خواہاں ہے۔
اگر ہم دہشت گردی کو شکست دینے اور اس کے فاسق نظریے کا خاتمہ چاہتے ہیں تو مسلم اقوام کو یہ بوجھ اٹھانا ہو گا۔ آپ کی اقوام کے لیے اس مشترکہ کوشش میں پہلا کام یہ ہے کہ بدی کے ان کرداروں پر زمین تنگ کر دیں۔ خطے میں ہر ملک کی مطلق ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کو پناہ لینے کا موقع نہ دے۔
بہت سے ممالک علاقائی سلامتی کے حوالے سے پہلے ہی نمایاں کام کر رہے ہیں۔ اردن کے پائلٹوں کا شام اور عراق میں داعش کے خلاف جنگ میں اہم کردار ہے۔ سعودی عرب اور علاقائی اتحاد نے یمن میں حوثی ملیشیا کے خلاف موثر اقدامات کیے ہیں۔ لبنانی فوج ملک میں داخل ہونے والے داعش کے دہشت گردوں کا پیچھا کر رہی ہے۔ اماراتی فوج ہمارے افغان شراکت داروں کی مددگار ہے۔ موصل میں امریکی فوجی دستے اپنی سرزمین کے لیے جنگ میں مصروف کردوں، سنیوں اور شیعوں کی مدد کر رہے ہیں۔ قطر ہمارا اہم تزویراتی شراکت دار ہے جو امریکی مرکزی کمان کا میزبان بھی ہے۔ کویت اور بحرین کے ساتھ ہماری طویل شراکت خطے میں سلامتی کی صورتحال بہتر بنانے میں معاون ہے۔ بہادر افغان سپاہی اپنے ملک کی خاطر طالبان اور ایسے دوسرے عناصر کے خلاف جنگ میں بہت بڑی قربانیاں دے رہے ہیں۔
ہمیں دہشت گرد تنظیموں کو اپنی سرزمین اور آبادی میں پر قبضہ جمانے سے روکنے کے ساتھ ساتھ ان کی مالیات کا راستہ بھی بند کرنا ہے۔ ہمیں ایسے مالیاتی ذرائع کے آگے بند باندھنا ہے جہاں داعش تیل فروخت کرتی ہے، جہاں سے وہ اپنے جنگجوؤں کو ادائیگیاں کرتی ہے اور دہشت گردوں کو کمک پہنچاتی ہے۔ میں فخریہ طور سے اعلان کرتا ہوں کہ آج یہاں موجود ممالک دہشت گردی کی مالیات پر قابو پانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کریں گے۔ اس سلسلے میں ‘دہشت گردی کی مالیات کو ہدف بنانے کا مرکز’ قائم کیا جائے گا۔ اس کی مشترکہ سربراہی امریکہ اور سعودی عرب کے پاس ہو گی جس میں خلیج تعاون کونسل کے تمام ارکان شامل ہوں گے۔ یہ طویل عرصے تک یادگار رہنے والے اس دن میں اٹھایا جانے والا ایک اور تاریخی قدم ہے۔
میں دہشت گردوں کے مالی معاونین کو اپنی سرزمین کے استعمال سے روکنے اور گزشتہ برس حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر خلیج تعاون کونسل کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ سعودی عرب نے بھی اس ہفتے حزب اللہ کے ایک اعلیٰ سطحی رہنما پر پابندیاں عائد کرنے میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔
یقیناً اس حوالے سے ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ اس کا مطلب اسلامی انتہاپسندی کے بحران اور اس سے متاثرہ اسلامی دہشت گرد گروہوں کا دیانت دارانہ انداز میں مقابلہ ہے۔ اس کا مطلب معصوم مسلمانوں کے قتل، خواتین پر جبر، یہودیوں کی تکالیف اور عیسائیوں کے قتل کے خلاف باہم مل کر کھڑے ہونا ہے۔
مذہبی رہنماؤں کو یہ بات مطلق طور سے واضح کر دینی چاہیے کہ بربریت اور برائی کا ساتھ دینےسے کوئی عظمت حاصل نہیں ہو گی۔ اگر آپ دہشت گردی کی راہ پر چلیں گے تو آپ کی زندگی کھوکھلی اور مختصر ہو جائے گی اور آپ کی روح پر دھبا لگ جائے گا۔
تمام سیاسی رہنماؤں کو بھی اسی نظریے کی توثیق کے لیے آواز بلند کرنا ہو گی۔ سورما معصوم لوگوں کو قتل نہیں کرتے بلکہ ان کی جان بچاتے ہیں۔ آج یہاں موجود بہت سی اقوام نے یہ پیغام پھیلانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ سعودی عرب کا ‘وژن 2030’ برداشت، احترام، خواتین کو بااختیار بنانے اور معاشی ترقی کے حوالے سے نہایت اہم اور حوصلہ افزا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے بھی پورے دل سے اس جنگ میں حصہ لیا ہے اور اس نے امریکہ کے ساتھ مل کر نفرت کے آن لائن پھیلاؤ کا سدباب کرنے کی غرض سےایک مرکز شروع کیا ہے۔ بحرین بھی دہشت گردوں کی بھرتی اور بنیادی پرستی پر قابو پانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
مہاجرین کو پناہ دینے پر میں اردن، ترکی اور لبنان کی بھی تحسین کرتا ہوں۔ مشرق وسطیٰ سے مہاجرین اور پناہ گزینوں کی نقل مکانی کے باعث مستحکم سماج اور معیشتوں کے قیام کے لیے انسانی سرمایے کی کمی ہو گئی ہے۔ اس خطے کو اس قدر بڑی تعداد میں انسانی صلاحیتوں سے محروم کرنے کے بجائے مشرق وسطیٰ کے ممالک نوجوانوں کو اپنے ہاں روشن مستقبل کی امید دلا سکتے ہیں۔
اس سے مراد خواتین، بچوں اور تمام عقائد کے ماننے والے تمام شہریوں کی تمناؤں اور خوابوں کی ترویج ہے جو اچھی زندگی کے خواہش مند ہیں۔ متعدد عرب اور اسلامی علما نے فصاحت سے زور دیا ہے کہ مساوات کی ترویج و تحفظ سے عرب اور مسلم معاشرے مضبوط ہوں گے۔
مشرق وسطیٰ میں کئی صدیوں تک عیسائی، مسلمان اور یہودی اکٹھے رہتے رہے ہیں۔ ہمیں ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے لیے برداشت اور احترام کو فروغ دینا اور اس خطے کو ایسی جگہ میں تبدیل کرنا ہو گا جہاں عقائد اور قومیت سے قطع نظر تمام مردوخواتین باوقار اور پرامید زندگی گزار سکیں۔
اسی جذبے کے تحت ریاض میں اپنا دورہ مکمل کرنے کے بعد میں یروشلم ، بیت اللحم اور پھر ویٹی کن جاؤں گا۔ یوں میں تین ابراہیمی مذاہب کے بہت سے مقدس ترین مقامات کا دورہ کر رہا ہوں۔ اگر یہ تین مذاہب ایک دوسرے سے تعاون کریں تو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں میں امن سمیت پوری دنیا میں امن کا قیام ممکن ہے۔ میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کروں گا۔
دہشتگردوں کو شکست دینے کے لیے انہیں ان کے علاقوں اور مالی وسائل سے محروم کرنا نیز ان کے بزدلانہ نظریے کا جھوٹا سحر توڑنا انھیں شکست دینے کیلئے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ مگر اس خطرے کے سدباب کے حوالے سے کوئی بات چیت اس حکومت کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی جو دہشتگردوں کو یہ تین چیزیں ،یعنی محفوظ ٹھکانے، مالی تعاون اور بھرتیوں کے لیے درکار سماجی قبولیت مہیا کرتی ہے۔ خطے میں عدم استحکام کی بڑی ذمہ داری اسی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ یقیناً میں ایران کی ہی بات کر رہا ہوں۔
لبنان سے عراق اور یمن تک ایران دہشتگردوں، جنگجوجتھوں ا اور دوسرے انتہاپسند گروہوں کو مالی وسائل، اسلحہ اور تربیت مہیا کرتا ہے جو خطے میں تباہی اور افراتفری پھیلاتے ہیں۔ کئی دہائیوں تک ایران فرقہ وارانہ کشیدگی اور دہشتگردی کو ہوا دیتا رہا ہے۔ یہ حکومت کھلم کھلا قتل عام ، اسرائیل کی تباہی کا عہد اور امریکہ سمیت یہاں موجود بہت سے لوگوں اور ممالک کے لیے موت اور تباہی کی بات کرتی ہے۔
ایران کی جانب سے دوسرے ممالک میں مداخلت اور انہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی المناک مثالوں میں شام بھی شامل ہے۔ ایران کی شہ پر بشارالاسد نے ناقابل بیان جرائم کا ارتکاب کیا اور اس کی جانب سے ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر امریکہ نے سخت کارروائی کرتے ہوئے انسٹھ ٹام ہاک میزائل اس شامی ہوائی اڈے پر داغے جہاں سے یہ قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔
ذمہ دار ممالک کو شام میں انسانی بحران پر قابو پانے، داعش کے خاتمے اور خطے میں استحکام واپس لانے کے لیے بہرصورت مل کر کام کرنا ہو گا۔
ایرانی حکومت کے ہاتھوں سب سے زیادہ مصائب ایرانی عوام نے جھیلے ہیں۔ ایران بھرپور تاریخ و ثقافت کا حامل ہے مگر ایرانی عوام نے اپنے رہنماؤں کی جانب سے جنگ اور دہشتگردی کے عاقبت نااندیشانہ اقدامات کی قیمت تکالیف اور مایوسی کی صورت میں چکائی ہے۔ ایران جب تک امن میں شراکت داری پر رضامند نہیں ہوتا اس وقت تک تمام باشعور اقوام کو اسے تنہا کرنے اور اس کی جانب سے دہشتگردی کیلئے مالی وسائل کی فراہمی کے خاتمے کے لیے متحدہ ہونا ہو گا۔ دنیا کی حساس اقوام کو اس دن کے لیے دعا کرنا ہو گی جب ایران میں منصفانہ اور جائز حکومت وجود میں آئے جس کے ایرانی عوام جائز طور سے مستحق ہیں۔
ہم جو فیصلے کریں گے ان کا اثر بے شمار لوگوں پر مرتب ہو گا۔ شاہ سلمان! میں اس عظیم تاریخی لمحے کی تخلیق اور امریکہ، اس کی صنعت اورملازمتوں میں بھاری سرمایہ کاری پر آپ کا شکرگزار ہوں۔ میں دنیا کے اس حصے کے مستقبل پر سرمایہ کاری کے لیے بھی آپ کا مشکور ہوں۔
یہ زرخیز خطہ بھرپور تاریخ، ثقافت، نوجوان اور پرجوش لوگوں نیز عظیم کارہائے نمایاں سرانجام دینے کے جذبے سمیت غیرمعمولی کامیابی کیلئے درکار تمام اجزاء سے مالا مال ہے۔ مگر آپ اس مستقبل کو اسی صورت پا سکتے ہیں جب مشرق وسطیٰ کے لوگ انتہاپسندی، دہشتگردی اور تشدد سے آزاد ہوں گے۔ یہاں موجود ہم تمام لوگ اپنے عوام کے رہنما ہیں۔ وہ ہم سے جواب اور عمل چاہتے ہیں۔ جب ہم ان کے چہروں کی جانب دیکھتے ہیں تو ہر آنکھ کے پیچھے ایک روح نظر آتی ہے جو انصاف کی متلاشی ہے۔
آج اربوں نئے چہرے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں اور اس عظیم تاریخی سوال کاعملی جواب ملنے کے منتظر ہیں۔ کیا ہم برائی کی موجودگی میں لاتعلق رہیں گے؟ کیا ہم اپنے شہریوں کو اس کی متشدد فکر سے تحفظ فراہم کریں گے؟ کیا ہم اس کے زہر کو اپنے معاشروں میں پھیلنے دیں گے؟ کیا ہم اسے کرہ ارضی پر انتہائی مقدس مقامات کو تباہ کرنے کی اجازت دیں گے؟
اگر ہم نے اس ہلاکت خیز دہشت کا مقابلہ نہ کیا تو ہم جانتے ہیں کہ مستقبل کیسا ہو گا۔ اس صورت میں ہمیں مزید مصائب اور مایوسی جھیلنا پڑے گی۔
تاہم اگر ہم دنیا کو لاحق اس خطرے سے نمٹنے کے لیے یہاں سے متحد اور پرعزم انداز میں واپس گئے تو پھر ہمارے لوگوں کو لامحدود انداز میں زبردست مستقبل میسر آئے گا۔
تہذیب کی جائے پیدائش نئی نشاۃ ثانیہ کے آغاز کی منتظر ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ کل کا دن ہمارے لیے کون سے امکانات سے معمور ہو سکتا ہے۔
سائنس، فن، طب اور تجارت کے پرشکوہ عجائبات انسان کے سامنے ہوں گے۔ تباہ شدہ علاقوں پر عظیم شہر تعمیر کیے جائیں گے۔ نئی نوکریوں اور صنعتوں کے در وا ہوں گے جن سے کروڑوں لوگوں کی زندگی بدل جائے گی۔ والدین کو اپنے بچوں کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہو گی، خاندانوں کو اپنے پیاروں کے لیے رونا نہیں پڑے گا اور لوگ بلا خوف و خطر عبادت کریں گے۔
یہ خوشحالی اور امن کے ثمرات ہیں۔ یہ وہ خواہشات ہیں جو ہر انسان کے دل میں نیکی کے شعلے کے ساتھ جلتی ہیں اور یہ ہمارے پیاروں کی جائز خواہشات ہیں۔
میں آپ سے کہتا ہوں کہ میرا ساتھ دیں، متحد ہو جائیں، مل کر کام کریں اور مشترکہ جدوجہد کریں کیونکہ متحد ہونے کی صورت میں ہم ناکام نہیں ہو گے۔
شکریہ۔ خدا آپ پر، آپ کے ملکوں پر اور امریکہ پراپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
###
وائٹ ہاؤس
دفتر سیکرٹری اطلاعات
برائے فوری اجراء
21 ِمئی 2017
یہ ترجمہ قارئین کی سہولت کے لئے فراہم کیا جا رہا ہے ،خیال رہے کہ اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے گا۔