عوامی جمہوریہ چین کے بارے میں امریکی انتظامیہ کی حکمت عملی

امریکی دفتر خارجہ
ترجمان کا دفتر
وزیر خارجہ اینٹنی جے بلنکن کا خطاب
دی جارج واشنگٹن یونیورسٹی
واشنگٹن، ڈی سی
26 مئی، 2022

وزیر خارجہ بلنکن: آپ کا شکریہ۔ صبح بخیر

یہاں دی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں آنا میرے لیے واقعی خوشی کا باعث ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو دنیا بھر سے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل طلبہ اور ماہرین علم کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے اور جہاں ہمارے ملک اور دنیا کو درپیش انتہائی فوری توجہ کے متقاضی مسائل کا مطالعہ ہوتا ہے اور ان پر بحث کی جاتی ہے۔ لہٰذا آج ہمیں یہاں بلانے پر آپ کا شکریہ۔

میں ایشیا سوسائٹی میں اپنے دوستوں کا خاص طور پر مشکور ہوں جنہوں نے خود کو ایشیا کے ممالک اور لوگوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کے لیے وقف کر رکھا ہے تاکہ امن، خوشحالی، آزادی، مساوات اور استحکام میں اضافہ ہو سکے۔ آج ہماری میزبانی پر ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہم روزانہ کی بنیاد پر آپ کے قائدانہ کردار کے بھی مشکور ہیں۔ ان میں کیون رڈ، وینڈی کٹلر اور ڈینی رسل سمیت تمام مفکرین اور عملی اقدامات کرنے والے لوگ شامل ہیں جن کے ساتھ موجودگی ہمیشہ شاندار ہوتی ہے۔

مجھے یہ کہنا ہے کہ میں سینیٹر رومنی کی آج یہاں آمد پر ان کا واقعتاً مشکور ہوں۔ وہ ایک ایسے شخص اور رہنما ہیں جن کا میں بہت زیادہ معترف ہوں، وہ زبردست بااصول شخص ہیں جو اس معاملے پر قائدانہ کردار ادا کرتے رہے ہیں جس کے بارے میں آج ہمیں بات کرنا ہے۔ سینیٹر، آپ کی موجودگی کا شکریہ۔

مجھے سفارتی شعبے سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کو یہاں دیکھ کر بھی خوشی ہے کیونکہ سفارت کاری ہمارے مشترکہ مستقبل کی تشکیل کے لیے ایک ناگزیر ذریعے کی حیثیت رکھتی ہے۔

گزشتہ دو برس میں ہم کووڈ۔19 وباء کا مقابلہ کرنے اور مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ ہنگامی طبی حالات سے نمٹنے، تجارتی ترسیلی سلسلوں میں خلل سے قرضوں کے بحران تک بہت سے معاشی نقصانات سے بحالی، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور مستقبل میں مزید ماحول دوست، محفوظ اور سستی توانائی کے تصورِنو جیسے معاملات پر اکٹھے ہوئے ہیں۔

ان تمام کوششوں میں یہ سادہ حقیقت مشترک ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ان مسائل سے اکیلا نہیں نمٹ سکتا۔ ہمیں ان کا اکٹھے سامنا کرنا ہے۔

اسی لیے ہم نے سفارت کاری کو دوبارہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مرکز بنایا ہے تاکہ ہمیں اس مستقبل کو عملی صورت دینے میں مدد ملے جس کی امریکہ اور دنیا بھر کے لوگ خواہش رکھتے ہیں۔ یہ ایسا مستقبل ہو گا جس میں ٹیکنالوجی لوگوں پر جبر کے لیے نہیں بلکہ ان کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے استعمال ہو۔ جہاں تجارت اور کاروبار سے محنت کشوں کو فائدہ پہنچے، آمدنی میں اضافہ ہو، مواقع تخلیق ہوں، جہاں عالمگیر انسانی حقوق کا احترام ہو، ممالک جبر اور جارحیت سے محفوظ ہوں، لوگوں، خیالات، اشیا اور سرمایے کی نقل و حرکت آزادانہ ہو اور جہاں ممالک اپنی سمت کا خود تعین کر سکیں اور اس کے ساتھ مشترکہ مقصد کے لیے باہم مل کر موثر طریقے سے کام کر سکیں۔

ایسے مستقبل کی تعمیر کے لیے ہمیں قوانین کی بنیاد پر قائم عالمی نظام کا دفاع کرنا اور اس میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ یہ ایسے قوانین، معاہدوں، اصولوں اور اداروں پر مشتمل نظام ہے جس کے لیے دنیا دو عالمی جنگوں کے بعد اکٹھی ہوئی تھی تاکہ ریاستوں کے مابین تعلقات کو بہتر رکھنے کا انتظام کیا جائے، جنگوں کو روکا جائے اور تمام لوگوں کے حقوق برقرار رکھے جا سکیں۔

اس کی بنیادی دستاویزات میں اقوام متحدہ کا چارٹر اور انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ بھی شامل ہیں جن میں خود اختیاری، خودمختاری اور تنازعات کے پُرامن حل کے تصورات دیے گئے ہیں۔ یہ مغرب کے بنائے ہوئے تصورات نہیں ہیں بلکہ یہ دنیا کی مشترکہ خواہشات کی عکاسی کرتے ہیں۔

اس کے بعد آنے والی دہائیوں میں مشکل مسائل اور ہمارے آدرشوں میں فرق کے باوجود ہم نے ان میں اپنے بعض اہداف حاصل کر لیے ہیں اور دنیا ایک اور عالمی جنگ اور جوہری طاقتوں کے مابین مسلح تنازعے کو روکنے میں کامیاب رہی ہے۔ ہم نے ایک عالمگیر معیشت تعمیر کی ہے جس نے اربوں لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ ہم نے انسانی حقوق کو جس طرح فروغ دیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

اب مستقبل کی جانب دیکھتے ہوئے ہم ناصرف اس عالمی نظام کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں جس نے اس قدر بڑی پیش رفت ممکن بنائی بلکہ ہم اسے جدید صورت بھی دینا چاہتے ہیں اور یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہ نظام ہر خطے سے تعلق رکھنے والے بڑے چھوٹے تمام ممالک کے مفادات، اقدار اور امیدوں کا نمائندہ ہو۔ مزید برآں یہ نظام ان مسائل پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہو جو آج ہمیں درپیش ہیں اور جن کا ہمیں مستقبل میں سامنا ہو سکتا ہے۔ ان میں بعض مسائل ایسے ہیں جن کا سات دہائیوں پہلے دنیا نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

تاہم مطلوبہ نتیجے کا حصول یقینی نہیں ہے کیونکہ عالمی نظام کی بنیادوں کو سنگین اور مستقل خطرہ لاحق ہے۔

روس کے صدر ولاڈیمیر پیوٹن کی جانب سے اس نظام کو واضح اور موجود خطرہ درپیش ہے۔ تین ماہ پہلے یوکرین پر چڑھائی کرکے انہوں نے خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے ان اصولوں پر بھی حملہ کیا جن کا تذکرہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہے اور جن کا مقصد تمام ممالک کو مفتوح ہونے اور جبر کا نشانہ بننے سے تحفظ دینا ہے۔ اسی لیے بہت سے ممالک اس جارحیت کی مخالفت میں متحد ہو گئے ہیں کیونکہ وہ اسے اپنے امن اور سلامتی کی بنیاد پر براہ راست خطرہ سمجھتے ہیں۔

یوکرین اپنے لوگوں اور اپنی آزادی کا بہادری سے دفاع کر رہا ہے جس میں اسے امریکہ اور دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے بے مثال مدد بھی حاصل ہے۔ اگرچہ یہ جنگ ختم نہیں ہوئی لیکن پیوٹن اپنا کوئی بھی تزویراتی مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یوکرین کی آزادی کو ختم کرنے کے بجائے ان کے اقدامات نے اسے مزید مضبوط کیا ہے۔ انہوں نے نیٹو کو کمزور کرنے کے بجائے اسے مزید متحد کر دیا ہے۔ انہوں نے روس کی طاقت منوانے کے بجائے اسے کمزور کر دیا ہے۔ انہوں نے عالمی نظام کو کمزور کرنے کے بجائے دنیا کے ممالک کو اس کے دفاع میں اکٹھا کر دیا ہے۔

صدر پیوٹن کی جنگ کے جاری رہتے ہوئے بھی ہماری توجہ عالمی نظام کو لاحق انتہائی سنجیدہ اور طویل مدتی مسئلے پر مرکوز رہے گی اور یہ مسئلہ بیجنگ کی جانب سے لاحق ہے۔

عوامی جمہوریہ چین وہ واحد ملک ہے جو بین الاقوامی نظام کی تشکیل نو چاہتا ہے اور اس کے پاس ایسا کرنے کے لیے معاشی، سفارتی، عسکری اور ٹیکنالوجی کی طاقت بھی موجود ہے۔ بیجنگ کا تصور ہمیں ان عالمگیر اقدار سے دور لے جائے گا جنہوں نے گزشتہ 75 برس سے زیادہ عرصہ میں دنیا کی ترقی کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

عالمی معیشت میں اور موسمیات سے کووڈ تک بہت سے مسائل کو حل کرنے کی ہماری اہلیت کے حوالے سے بھی چین کی خاص اہمیت ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو امریکہ اور چین کو مستقبل قریب کے لیے ایک دوسرے سے مل کر کام کرنا ہو گا۔

اسی لیے یہ اس وقت دنیا میں ہمارا انتہائی پیچیدہ اور مستقبل کے لیے نتیجہ خیز تعلق ہے۔

گزشتہ سال بائیڈن انتظامیہ نے اپنی قومی طاقتوں اور اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے بے مثال نیٹ ورک سے کام لینے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار اور نافذ کی جس کا مقصد اس مستقبل کو حقیقت کا روپ دینا تھا جس کی ہم سب خواہش رکھتے ہیں۔

ہم تنازع یا ایک نئی سرد جنگ نہیں چاہتے۔ اس سے برعکس ہم ان دونوں سے گریز کا عزم رکھتے ہیں۔

ہم چین کو یا کسی دوسرے ملک کو ایک بڑی طاقت کا کردار ادا کرنے اور انہیں اپنی معیشت کو ترقی دینے یا اپنے لوگوں کے مفادات کو فروغ دینے سے روکنا نہیں چاہتے۔

لیکن ہم بین الاقوامی قانون اور اُن معاہدوں، اصولوں اور اداروں کا دفاع کریں گے اور انہیں مضبوط بنائیں گے جو امن و سلامتی برقرار رکھتے ہیں، افراد اور خودمختار ممالک کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں اور امریکہ اور چین سمیت تمام ممالک کے لیے بقائے باہمی اور تعاون ممکن بناتے ہیں۔

آج کا چین 50 سال پہلے کے چین سے بہت مختلف ہے جب صدر نکسن نے اس کے ساتھ دہائیوں پر مشتمل کشیدہ تعلقات کا خاتمہ کیا اور چین کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بنے۔ اس وقت چین دنیا سے الگ تھلگ تھا اور بڑے پیمانے پر پھیلی غربت اور بھوک سے لڑ رہا تھا۔

اب چین غیرمعمولی پہنچ، اثرورسوخ اور عزائم رکھنے والی ایک عالمی طاقت ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جہاں جدید ترین شہر اور نقل وحمل کے بہترین نظام ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں کا مرکز ہے اور مستقبل کی ٹیکنالوجی اور صنعتوں پر غلبہ پانا چاہتا ہے۔ اس نے اپنی فوج کو تیزی سے جدید خطوط پر استوار کیا ہے اور ایک اعلیٰ درجے کی جنگجو قوت بننا چاہتا ہے جس کی دنیا بھر میں رسائی ہو۔ اس نے اپنا دائرہ اثر ہند۔الکاہل میں پھیلانے اور دنیا کی نمایاں طاقت بننے کے ارادے کا اعلان کیا ہے۔

چین میں یہ تبدیلی اس کی صلاحیتوں، اختراعی قوت اور چین کے لوگوں کی سخت محنت کے باعث آئی ہے۔ یہ سب کچھ عالمی نظام کے مہیا کردہ استحکام اور مواقع کی بدولت بھی ممکن ہوا۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ چین نے اس نظام سے جتنا فائدہ اٹھایا ہے اتنا روئے زمین پر کسی اور ملک نے نہیں اٹھایا۔

تاہم بیجنگ اپنی اس کامیابی کا باعث بننے والے ان قوانین، معاہدوں، اصولوں اور اداروں کو مضبوط بنانے اور انہیں نئی طاقت بخشنے اور دوسروں کو بھی ان سے استفادے کے قابل بنانے کے بجائے کمزور کر رہا ہے۔ صدر ژی کے زیرقیادت حکمران چینی کمیونسٹ پارٹی اندرون ملک زیادہ جابر اور بیرون ملک زیادہ جارحانہ بن چکی ہے۔

اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ بیجنگ نے اپنے ہاں بڑے پیمانے پر نگرانی کا نظام بنایا اور اس ٹیکنالوجی کو 80 سے زیادہ ممالک کو برآمد کیا، وہ جنوبی بحیرہ چین میں سمندر پر غیرقانونی دعوے کر رہا ہے، امن و سلامتی، جہاز رانی کی آزادی اور تجارت کو کمزور کر رہا ہے، تجارتی قوانین کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہا ہے یا انہیں توڑ رہا ہے، امریکہ سمیت دنیا بھر کے کارکنوں اور کمپنیوں کو نقصان پہنچا رہا ہے اور خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا حامی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایسی حکومتوں کا ساتھ دے رہا ہے جو ان قوانین اور اصولوں کو کھلے عام پامال کرتی ہیں۔

یہاں تک کہ جب روس یوکرین پر حملے کی کھلے عام تیاری کر رہا تھا اس وقت بھی صدر ژی اور صدر پیوٹن نے قرار دیا کہ ان کے ممالک کے مابین دوستی ”لامحدود” ہے۔ اسی ہفتے ہی جب صدر بائیڈن جاپان کا دورہ کر رہے تھے تو چین اور روس نے علاقے میں بمبار طیاروں کا ایک تزویراتی گشت کیا۔

صدر پیوٹن کی جانب سے یوکرین کی خودمختاری کو ختم کرنے اور یورپ میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لیے چھیڑی جانے والی جنگ کے دفاع میں بیجنگ کا موقف دیکھ کر ہم سب کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو ہند۔الکاہل خطے کو اپنا گھر کہتے ہیں۔

انہی اور ان جیسی دیگر وجوہات کی بنا پر یہ دنیا کے لیے ایک اہم وقت ہے۔ ایسے دور میں سفارت کاری خاص اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔ اسی کی بدولت ہم اپنے اہم خدشات کو واضح کر سکتے ہیں، ایک دوسرے کے نقطہء نظر کو بہتر طور سے سمجھ سکتے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے ارادوں پر شبہ نہیں ہوتا۔ ہم بہت سے امور پر بیجنگ کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔

لیکن ہم بیجنگ کی سمت تبدیل ہونے کے معاملے میں اس پر اعتبار نہیں کر سکتے۔ اسی لیے ہم ایک کھلے اور شراکتی عالمی نظام سے متعلق اپنے تصور کو فروغ دینے کے لیے بیجنگ کے گرد ایک تزویراتی ماحول تشکیل دیں گے۔

صدر بائیڈن سمجھتے ہیں کہ یہ دہائی فیصلہ کن ہو گی۔ ہم ہم اندرون ملک اور دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ مل کر جو اقدامات کریں گے ان سے یہ تعین ہو گا کہ آیا مستقبل کے لیے ہمارا مشترکہ تصور حقیقت میں تبدیل ہوتا ہے یا نہیں۔

اس فیصلہ کن دہائی میں کامیابی کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی حکمت عملی تین الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے اور وہ ”سرمایہ کاری، برابری اور مسابقت۔” ہیں۔

ہم اندرون ملک اپنی طاقت کی بنیادوں کو مضبوط کریں گے جن میں ہماری مسابقتی صلاحیت، ہماری اختراع اور ہماری جمہوریت شامل ہیں۔

ہم اپنی کوششوں کو اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے نیٹ ورک کے ساتھ ہم آہنگ کریں گے اور اپنے مشترکہ مقصد اور مشترکہ سبب کے تحت کام کریں گے۔

اپنی ان دو اہم طاقتوں سے کام لے کر ہم اپنے مفادات کے تحفظ اور مستقبل کے لیے اپنے تصور کو آگے بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔

ہم اس چیلنج کو پُراعتماد انداز میں قبول کرتے ہیں۔ ہمارا ملک بہت سی طاقتوں سے مالا مال ہے۔ ہمارے پاس پُرامن ہمسایے ہیں، ایک متنوع اور ترقی پاتی آبادی ہے، وسائل کی فراوانی ہے۔ دنیا کی ریزرو کرنسی ہے، دنیا میں سب سے طاقت ور فوج ہے اور اختراع اور کاروبار کا ایک پھلتا پھولتا ماحول ہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہم نے بہت سی موثر ویکسین تیار کی ہیں جو اس وقت دنیا بھر کے لوگوں کو کووڈ۔19 سے تحفظ دے رہی ہیں۔

ہمارا کھلا معاشرہ اپنی بہترین صورت میں دنیا بھر سے صلاحیتوں اور سرمایہ کاری کو اپنی جانب راغب کرتا ہے اور اس میں تخلیق نو کی موثر اور آزمائی ہوئی صلاحیت ہے۔ اس ماحول کی جڑیں ہماری جمہوریت میں ہیں اور یہ ہمیں ہر طرح کے مسائل کا مقابلہ کرنے اور ان پر قابو پانے کی طاقت دیتا ہے۔

پہلا نکتہ اپنی طاقت کو بہتر بنانے سے متعلق ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد جب ہم اور ہمارے شراکت دار قوانین کی بنیاد پر عالمی نظام تعمیر کر رہے تھے تو ہماری وفاقی حکومت سائنسی تحقیق، تعلیم، بنیادی ڈھانچے اور ہماری افرادی قوت کے حوالے سے بھی تزویراتی اقدامات کر رہی تھی جس کے نتیجے میں متوسط طبقے کے لیے لاکھوں نوکریاں اور خوشحالی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قائدانہ کردار کی دہائیاں تخلیق ہو رہی تھیں۔ لیکن ہم ان بنیادوں کو مضبوط بنانے کے لیے خاطرخواہ انداز میں کام نہ کر سکے۔ اس لیے یہ ان پر دوبارہ توجہ دینے کا وقت ہے۔

بائیڈن انتظامیہ ہماری قومی طاقت کے بنیادی ذرائع کو مضبوط بنانے کے لیے دور رس اقدامات کر رہی ہے جن کا آغاز ایک جدید صنعتی حکمت عملی سے ہوتا ہے جس کا مقصد معیشت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہمارے اثرورسوخ کو قائم رکھنا اور وسعت دینا، ہماری معیشت اور تجارتی سامان کی ترسیل کے سلسلوں کو مزید مضبوط کرنا اور ہماری مسابقتی طاقت کو پہلے سے زیادہ موثر بنانا ہے۔

گزشتہ سال صدر بائیڈن نے ہماری تاریخ میں بنیادی ڈھانچے پر سب سے بڑی سرمایہ کاری کے قانون کی منظوری دی جس کا مقصد ہماری شاہراہوں، بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، ریلوے لائنوں اور پلوں کو جدید بنانا، اشیا کو تیزرفتار سے منڈیوں تک پہنچانا، ہماری پیداواری صلاحیت کو ترقی دینا، ملک کے ہر کونے میں تیزرفتار انٹرنیٹ پہنچانا، امریکہ کے مزید حصوں میں مزید کاروبار اور مزید نوکریاں پیدا کرنا ہے۔

ہم تعلیم اور کارکنوں کی تربیت کے شعبے میں تزویراتی سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ دنیا بھر میں بہترین سمجھے جانے والے امریکہ کے کارکن مستقبل کی ٹیکنالوجی تیار کر سکیں اور اس سے کام لے سکیں۔

چونکہ ہماری صنعتی حکمت عملی کا محور ٹیکنالوجی ہے اس لیے ہم تحقیق، ترقی اور جدید صنعت پر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ ساٹھ سال پہلے ہماری حکومت نے تحقیق پر جتنی رقم خرچ وہ آج ہماری معیشت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس شعبے پر خرچ کی جانے والی رقم کے دو گنا سے بھی زیادہ تھی۔ اس کے نتیجے میں نجی شعبے میں اختراع کی رفتار تیز ہو گئی۔ اسی وجہ سے ہم نے خلائی دوڑ جیتی، سیمی کنڈکٹر کی صنعت ایجاد کی اور انٹرنیٹ بنایا۔ ہم اپنے جی ڈی پی کے اعتبار سے تحقیق و ترقی میں دنیا کا پہلا ملک تھے اور آج ہمارا درجہ نوواں ہے۔ اسی دوران چین آٹھویں درجے سے ترقی کر کے دوسرے پر پہنچ چکا ہے۔

کانگریس کی دوطرفہ مدد کے ساتھ ہم ان رحجانات کا رخ واپس موڑ دیں گے اور تحقیق و اختراع کے شعبے میں تاریخی سرمایہ کاری کریں گے جس میں مصنوعی ذہانت، بائیو ٹیکنالوجی اور کوانٹم کمپیوٹنگ بھی شامل ہیں۔ یہ وہ شعبے ہیں جن میں بیجنگ آگے رہنا چاہتا ہے لیکن امریکہ کو حاصل فوائد کو دیکھا جائے تو ناصرف نئی ٹیکنالوجی کی تیاری بلکہ دنیا بھر میں اس کے استعمال کے تعین میں بھی یہ مقابلہ ہمیں جیتنا ہے تاکہ اس کی جڑیں آمرانہ کے بجائے جمہوری اقدار میں ہوں۔

قیادت ــ سینیٹر رومنی اور دیگر ـــ ایوان نمائندگان اور سینیٹ نے اس ایجنڈے میں تعاون کے لیے بِل منظور کیے ہیں جن میں اندرون ملک سیمی کنڈکٹر تیار کرنے اور تجارتی سامان کی ترسیل کے دیگر اہم سلسلوں کو مضبوط کرنے کے لیے اربوں ڈالر شامل ہیں۔ اب کانگریس کو یہ قانون صدر کے پاس بھیجنا ہے تاکہ وہ اس پر دسختط کر سکیں۔

ہم یہ سب کچھ کر سکتے ہیں اور اس میں انتظار نہیں ہو سکتا کیونکہ تجارتی ترسیلی سلسلے کام کر رہے ہیں اور اگر ہم ان کا رخ اپنی جانب نہیں موڑیں گے تو وہ کسی اور کو فائدہ پہنچائیں گے۔ جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا، چینی کمیونسٹ پارٹی رائے عامہ کو اس قانون سازی کا مخالف بنانے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ ہمارے پاس اپنی جمہوری تجدید سے بڑھ کر اپنا عالمی مقام اور دائرہ اثر بڑھانے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ یہ سرمایہ کاری ناصرف امریکہ کو مضبوط تر بنائے گی بلکہ ہمیں دوسرے ممالک کا مضبوط شراکت دار اور اتحادی بننے میں بھی مدد دے گی۔

امریکہ کے حوالے سے ایک انتہائی طاقتور حتیٰ کہ جادوئی بات یہ ہے کہ طویل عرصہ سے ہم دنیا بھر کے باصلاحیت لوگوں کی منزل رہے ہیں۔ اس میں چین سے آنے والے لاکھوں طلبہ بھی شامل ہیں جنہوں نے ہمارے معاشروں کو مضبوط بنایا اور امریکہ کے لوگوں کے ساتھ زندگی بھر کے تعلق قائم کیے ہیں۔ وباء کے باوجود گزشتہ سال ہم نے صرف چار ماہ میں چین سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو ایک لاکھ سے زیادہ ویزے جاری کیے جو اس حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ انہوں نے حصول تعلیم کے لیے امریکہ کا انتخاب کیا اور ہم خوش قسمت ہیں کہ وہ ہمارے ہاں موجود ہیں۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ دنیا بھر سے باصلاحیت لوگ ناصرف یہاں حصول تعلیم کے لیے آتے ہیں بلکہ یہاں رہتے بھی ہیں۔ چین سے تعلق رکھنے والے 80 فیصد سے زیاہد طلبہ اس کی مثال ہیں جو حالیہ برسوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے امریکہ میں آئے۔ انہوں ںے امریکہ میں ایجاد و اختراع میں مدد دی جس سے ہم سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہم اپنی سرحدیں بند کیے بغیر اپنی قومی سلامتی کے حوالے سے چوکس رہ سکتے ہیں۔

ہماری تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ جب ہم کسی دوسری حکومت کے ساتھ مشکل تعلقات سے نبردآزما ہوتے ہیں تو اس ملک یا اس ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یہ بھی باور کرایا جا سکتا ہے کہ وہ یہاں سے تعلق نہیں رکھتے یا وہ ہمارے مخالفین میں سے ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ چینی امریکیوں نے ہمارے ملک کے لیے قابل قدر کردار ادا کیا ہے اور وہ کئی نسلوں سے ایسا کرتے چلے آئے ہیں۔ چینی پس مںظر سے تعلق رکھنے والے کسی فرد سے بدسلوکی ان تمام اقدار کے خلاف ہے جو بحیثیت ملک ہمارا خاصہ ہیں۔ خواہ چین سے تعلق رکھنے والا کوئی شہری امریکہ کا دورہ کر رہا ہو یا یہاں رہ رہا ہو، یا کوئی چینی امریکی اور یا کوئی ایشیائی امریکی جو اس ملک کا شہری ہے وہ یہاں کسی بھی دوسرے شہری کے برابر حقوق رکھتا ہے۔ تمام افراد کے لیے یکسان مواقع کی فراہمی سے متعلق عہد کی تکمیل کے لیے تارکین وطن کی کئی نسلوں کے ہاتھوں تعمیر ہونے والے اس ملک میں نسل پرستی اور نفرت کی کوئی جگہ نہیں۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی اور حکومت کے ساتھ ہمارے شدید اختلافات ہیں۔ لیکن یہ اختلافات دونوں ممالک کے عوام کے مابین نہیں بلکہ حکومتوں اور نظام کے درمیان ہیں۔ امریکہ کے عوام چین کے لوگوں کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں۔ ہم ان کی کامیابیوں، ان کی تاریخ اور ان کی ثقافت کا احترام کرتے ہیں۔ ہم دونوں ممالک کے عوام کے مابین خاندانی تعلقات اور دوستی کی بے حد قدر کرتے ہیں۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہماری حکومتیں ایسے مسائل پر باہم مل جل کر کام کریں جو ان کی زندگیوں اور امریکہ کے لوگوں کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور جن کا اثر پوری دنیا کے لوگوں پر پڑتا ہے۔

ہماری قومی طاقت کا ایک اور بنیادی ذریعہ بھی ہے جس پر ہم اس فیصلہ کن دہائی میں انحصار کریں گے اور وہ ہماری جمہوریت ہے۔

اگر سو سال پہلے یہ پوچھا جاتا کہ کسی ملک کا سب سے بڑا سرمایہ کیا ہے تو ہم اپنی زمین کی وسعت، اپنی آبادی، اپنی فوج کی طاقت اور اپنے قدرتی وسائل کی فراوانی کا نام لیتے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس یہ تمام چیزیں اب بھی فراواں طور سے موجود ہیں۔ لیکن 21ویں صدی میں کسی ملک کے لوگ، اس کے افرادی وسائل اور ان کی پوری صلاحیتوں کو کام میں لانے کی اہلیت ہی اس کا حقیقی سرمایہ ہوتا ہے۔

ہم اپنے جمہوری نظام کے ذریعے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ ہم بحث مباحثہ کرتے ہیں، ہم دلائل دیتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے عدم اتفاق کرتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے اور اپنے منتخب نمائندوں سے سوالات کرتے ہیں۔ ہم اپنی خامیوں پر قابو پانے کی کھلے عام کوشش کرتے ہیں، ہم یہ ظاہر نہیں کرتے کہ ہم خامیوں سے پاک ہیں اور نہ ہی انہیں چھپاتے ہیں۔ اگرچہ پیش رفت تکلیف دہ طور سے سست رفتار ہو سکتی ہے، یہ مشکل اور بدہیت بھی ہو سکتی ہے لیکن بحیثیت مجموعی ہم ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کے لیے متواتر کام کرتے ہیں جہاں ہر طرح کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ ان قومی اقدار کے بل بوتے پر ترقی کر سکیں جو ہمیں متحد کرتی، متحرک کرتی اور ہماری زندگیوں کو بہتر بناتی ہیں۔

ہم ہر اعتبار سے مکمل نہیں ہیں۔ لیکن ہم خود کو بہتر سے بہتر تر بنانے کی اپنی بہترین کوشش کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے آئین میں لکھا ہے ”مزید مکمل اتحاد”۔ ہماری جمہوریت اسی کے لیے بنی ہے۔

امریکہ کے لوگ اور امریکہ کا نمونہ یہی کچھ پیش کرتا ہے اور یہ اس تناظر میں ہمارا طاقتور ترین اثاثہ ہے۔

اب، بیجنگ کا خیال ہے کہ اس کا نمونہ دوسروں سے بہتر ہے اور پارٹی کے زیرقیادت ایک مرکزی نظام زیادہ موثر، کم پراگندہ اور بالاآخر جمہوریت پر حاوی ہوتا ہے۔ ہم چین کے سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ ہمارا مقصد ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کرنا ہے کہ جمہوریت فوری توجہ کے متقاضی مسائل سے نمٹ سکتی ہے، مواقع پیدا کرتی ہے اور انسانی وقار کو بڑھاتی ہے۔ مستقبل ان کا ہے جو آزادی اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام ممالک کسی جبر کے بغیر اپنی راہ خود متین کرنے کے لیے آزاد ہوں۔

مستقبل کے مشترکہ تصور کو فروغ دینے کے لیے ہماری حکمت عملی کا دوسرا حصہ ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

روز اول سے ہی بائیڈن انتظامیہ نے امریکہ کے اتحادوں اور شراکتوں کے بے مثل نیٹ ورک کو ازسرنو منظم کرنے اور عالمی اداروں میں دوبارہ شمولیت کے لیے کام کیا ہے۔ ہم اپنے شراکت داروں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی اداروں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ کام کریں۔ ہم نئے اتحاد بنا رہے ہیں تاکہ اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جائے اور آنے والی صدی کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔

ہند۔الکاہل سے زیادہ کہیں اور یہ بات صادق نہیں آتی جہاں ہماری شراکتیں اور ہماری معاہداتی اتحاد دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط ہیں۔

امریکہ اسی تصور کا حامل ہے جو اس پورے خطے کے ممالک اور لوگوں کا ہے یعنی ہند۔الکاہل کو ایک آزاد اور کھلا خطہ ہونا چاہیے جہاں قوانین شفاف انداز میں بنائے جائیں اور ان پر منصفانہ طور سے عمل کیا جائے، جہاں ممالک اپنے خودمختار فیصلے کرنے کے لیے آزاد ہوں، جہاں اشیا، خیالات اور زمین، فضا، سائبر سپیس اور کھلے سمندروں میں لوگوں کی نقل و حرکت آزادانہ ہو اور حکومتیں لوگوں کو جوابدہ ہوں۔

صدر بائیڈن نے اس ہفتے اس خطے کے دورے میں ان ترجیحات کو مضبوط بنایا جہاں انہوں نے جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ سلامتی سے متعلق ہمارے اہم اتحادوں کی ازسرنو توثیق کی اور دونوں ممالک کے ساتھ معیشت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپے تعاون کو مزید مضبوط کیا۔

اس دوران انہوں نے انڈو۔ پیسیفک اکنامک فریم ورک برائے خوشحالی کا آغاز کیا جو کہ اس خطے میں اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے۔ صدر کے الفاظ میں یہ اقدام ہمارے ممالک کو اپنی معیشتوں کو تیزتر اور شفاف تر انداز میں ترقی دینے میں معاون ہو گا۔ یہ فریم ورک جسے ہم آئی پی ای ایف بھی کہتے ہیں، امریکہ کی معاشی قیادت کی تجید کرتا ہے لیکن ڈیجیٹل معیشت، تجارتی ترسیلی سلسلوں، ماحول دوست توانائی، بنیادی ڈھانچے اور بدعنوانی جیسے اہم امور اور مسائل کو حل کر کے ہمیں خود کو 21ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ انڈیا سمیت درجن بھر ممالک پہلے ہی اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ آئی پی ای ایف میں شامل ممالک کا عالمی معیشت میں ایک تہائی سے زیادہ حصہ ہے۔

صدر نے کواڈ ممالک ــ آسٹریلیا، جاپان، انڈیا اور امریکہ کے رہنماؤں کی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ صدر بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے کواڈ کے رہنماؤں کا کبھی کوئی اجلاس نہیں ہوا تھا۔ گزشتہ برس صدر کی جانب سے کواڈ کے رہنماؤں کی پہلے سربراہ اجلاس سے اب تک کواڈ کی چار کانفرنسیں ہو چکی ہیں۔ اب یہ ایک نمایاں علاقائی ٹیم بن چکی ہے۔ اس ہفتے اس نے سمندری عملداری کے بارے میں آگاہی سے متعلق ہند۔الکاہل کی پہلی شراکت شروع کی تاکہ خطے بھر میں ہمارے شراکت دار اپنے ساحلی پانیوں کی بہتر طور سے نگرانی کر سکیں تاکہ غیرقانونی ماہی گیری پر قابو پائیں اور اپنے سمندری حقوق اور خودمختاری کا تحفظ کریں۔

ہم آسیان کے ساتھ اپنی شراکت کو دوبارہ مضبوط بنا رہے ہیں۔ اس مہینے کے آغاز میں ہم نے امریکہ۔آسیان کانفرنس کی میزبانی کی جس کا مقصد صحت عامہ اور موسمیاتی بحران جیسے فوری توجہ کے متقاضی مسائل پر باہم مل کر قابو پانے کی کوششیں کرنا ہے۔ اس ہفتے آسیان کے سات ممالک انڈو۔پیسیفک اکنامک فریم ورک کے بانی رکن بن گئے ہیں۔ ہم ہند۔الکاہل اور اپنے یورپی شراکت داروں کے مابین فاصلے کم کر رہے ہیN جس میں آئندہ مہینے میڈرڈ میں ہونے والی نیٹو کانفرنس میں ایشیائی اتحادیوں کو مدعو کرنے کا اقدام بھی شامل ہے۔

ہم ہند۔الکاہل میں امن و استحکام کو فروغ دے رہے ہیں۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے درمیان سلامتی کے شعبے میں نئی شراکت اس کی نمایاں مثال ہے جسے ہم ‘اے یو کے یو ایس’ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔

ہم خطے اور دنیا بھر کے ممالک کو کووڈ۔19 کو شکست دینے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اب تک امریکہ نے دنیا بھر میں اس وباء کے خلاف اقدامات کے لیے قریباً 20 بلین ڈالر مہیا کیے ہیں۔ اس میں محفوظ و موثر ویکسین کی 540 ملین سے زیادہ خوراکیں بھی شامل ہیں جو فروخت نہیں بلکہ عطیہ کی گئی ہیں اور اس کے لیے کوئی سیاسی شرائط نہیں رکھی گئیں۔ ہم نے دنیا بھر میں 1.2 بلین خوراکیں پہنچانا ہیں۔ ہم ایک عالمگیر عملی منصوبے کے تحت 19 ممالک کے ایک گروہ کے ساتھ مل کر لوگوں کو ویکسین لگانے میں مدد دے رہے ہیں۔

اس سفارت کاری کے نتیجے میں ہم ہند۔الکاہل میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ پہلے سے زیادہ ہم آہنگ ہو گئے ہیں اور اپنے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مزید مربوط انداز میں مصروف عمل ہیں۔

ہم نے بحر اوقیانوس کے آر پار اپنی ہم آہنگی کو بھی مزید مضبوط کیا ہے۔ گزشتہ سال ہم نے امریکہ اور یورپی یونین کی تجارتی و ٹیکنالوجی کونسل شروع کی جس میں شامل ممالک دنیا کے جی ڈی پی کا قریباً 50 فیصد پیدا کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے میں نے سیکرٹری ریمونڈو، سفیر تائی اور یورپی کمیشن سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ کونسل کے دوسرے اجلاس میں شرکت میں کی جس کا مقصد ٹیکنالوجی سے متعلق نئے معیارات وضع کرنے کے لیے اکٹھے کام کرنا، سرمایہ کاری کی جانچ اور برآمدی پابندیوں پر رابطہ کاری، تجارتی سازوسامان کی ترسیل کے نظام مضبوط بنانا، ماحول دوست ٹیکنالوجی کا فروغ اور ترقی پذیر ممالک میں غذائی تحفظ کی صورت حال اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بہتر کرنا تھا۔

اسی دوران ہم اور ہمارے یورپی شراکت داروں نے جہاز سازی کے حوالے سے اپنے 17 سال پرانے قانونی تنازعے کو ایک جانب رکھا اور اب ہم ایک دوسرے سے بحث کرنےکے بجائے اس شعبے میں اپنی کمپنیوں اور کارکنوں کے لیے مساوی مواقع یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

اسی طرح ہم نے سٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر ایک تنازعے کو حل کرنے کے لیے یورپی یونین اور دیگر ممالک کے ساتھ کام کیا اور اب ہم اعلیٰ ماحولیاتی معیارات اور اپنے کارکنوں اور صنعتوں کو بیجنگ کی جانب سے منڈی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی دانستہ کوششوں کے خلاف تحفظ دینے کے معاملے میں ایک مشترکہ سوچ کے تحت اکٹھے کام کر رہے ہیں۔

ہم معلومات کے وسیع بہاؤ کی بنیاد پر ایک مشترکہ ڈیجیٹل معیشت کو مضبوط کرتے ہوئے اپنی شہریوں کی نجی زندگی کے تحفظ کے لیے یورپی یونین کے ساتھ شراکت میں کام کر رہے ہیں۔

ہم نے عالمی سطح پر کم از کم ٹیکس کی شرح میں کمی کی دوڑ ختم کرنے کے لیے جی 20 کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا اور یہ یقینی بنایا کہ بڑے کاروباری ادارے ٹیکس کی ادائیگی میں اپنا جائز حصہ ڈالیں اور ممالک کو اپنے لوگوں پر خرچ کرنے کے لیے مزید وسائل مہیا کریں۔ اس معاہدے پر اب تک 130 سے زیادہ ممالک دستخط کر چکے ہیں۔

ہم اور ہمارے جی7 شراکت دار ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے سے متعلق بہت بڑی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک مربوط، اعلیٰ سطحی اور شفاف طریقہ کار سے کام لے رہے ہیں۔

ہم نے کووڈ،19 کو شکست دینے اور عالمگیر معیشت کی بحالی کے لیے بین الاقوامی کانفرنسوں کا انعقاد کیا اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کونسل اور عالمی ادارہ صحت میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔

اس بہت بڑے امتحان کے موقع پر ہم اور ہمارے اتحادیوں نے نیٹو کو نئے سرے سے مضبوط کیا جو اب ہمیشہ کی طرح مضبوط ہے۔

ان تمام اقدامات کا مقصد قانون کی بنیاد پر قائم عالمی نظام کا دفاع کرنا اور جہاں ضروری ہو اس میں اصلاحات لانا ہے تاکہ اس سے تمام ممالک کو فائدہ پہنچے۔ ہم ٹیکنالوجی، موسمیات، بنیادی ڈھانچے، عالمگیر صحت اور جامع معاشی ترقی کے شعبوں میں اول مقام حاصل کرنے کی دوڑ جیتنا چاہتے ہیں۔ ہم اس نظام کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں جس میں زیادہ سے زیادہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ موثر طور سے تعاون کر سکیں، اپنے اختلافات کو پرامن طور سے حل کر سکیں اور مساوی حیثیت کے حامل خودمختار ممالک کے طور پر اپنے مستقبل خود ترتیب دے سکیں۔

ہماری سفارت کاری کی بنیاد شراکت اور ایک دوسرے کے احترام پر ہے۔ ہم ہر ملک سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ چین کے بارے میں وہی کچھ سوچے گا جو کہ ہم سوچتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ سمیت بہت سے ممالک کے چین کے ساتھ معاشی یا عوامی تعلقات ہیں جنہیں وہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ممالک کو کوئی راہ منتخب کرنے پر مجبور کرنے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ان کے سامنے راستہ پیش کرنے کی بات ہے۔ مثال کے طور پر انہیں بتایا جائے کہ غیرشفاف سرمایہ کاری ہی ان کے پاس واحد راستہ نہیں ہے جو ممالک کو قرضوں میں جکڑ دیتی ہے، بدعنوانی کو فروغ دیتی ہے، ماحول کو نقصان پہنچاتی ہے، مقامی سطح پر نوکریوں کی تخلیق اور ترقی کو روک دیتی ہے اور ممالک کو اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ ہم ایسے معاہدے کرنے والے ممالک کا پچھتاوا خود سن چکے ہیں۔

ہم ہر قدم پر اپنے شراکت داروں کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں، ان کی بات سن رہے ہیں، ان کے خدشات پر سنجیدہ توجہ دے رہے ہیں اور ان کے منفرد مسائل کے حل اور ترجیحات کی تکمیل میں مدد دے رہے ہیں۔

بیجنگ کے ساتھ مزید حقیقت پسندانہ تعلقات کی حکمت عملی کی ضرورت کے حوالے سے ہم آہنگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے بہت سے شراکت دار اپنے تکلیف دہ تجربات کی بدولت پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ جب ایسے ممالک بیجنگ کی پسند سے برعکس راہ چنیں تو اس کا طرزعمل کس قدر مخالفانہ ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اس سال کے اوائل میں بیجنگ نے اپنے طلبہ اور سیاحوں کو آسٹریلیا جانے سے روک دیا اور آسٹریلیا سے جو کی درآمد پر 80 فیصد ٹیرف عائد کر دیا کیونکہ آسٹریلیا کی حکومت نے کووڈ۔19 کے آغاز کے بارے میں غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ گزشتہ سال نومبر میں چین کے بحری محافظوں کے جہاز نے جنوبی بحیرہ چین میں فلپائن کی بحریہ کے ایک جہاز پر پانی پھینکنے والی توپیں داغیں۔ اس طرح کے اقدامات دنیا کو یہ ہاد دہانی کراتے ہیں کہ بیجنگ اپنی مفروضہ مخالفت پر کس انداز میں انتقامی کارروائی کر سکتا ہے۔

ہماری اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ انسانی حقوق کے شعبے میں بھی ہم آہنگی ہے۔

امریکہ شِنگ جینگ خطے میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے معاملے میں دنیا بھر کے ممالک اور لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے جہاں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ان کی نسلی و مذہبی شناخت کے باعث حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔

ہم تبت کے معاملے میں بھی اکٹھے ہیں جہاں حکام تبت کے لوگوں اور ان کی ثقافت، زبان اور مذہبی روایات کے خلاف ظالمانہ مہم چلا رہے ہیں۔ ہم ہانگ کانگ کے لوگوں کے لیے بھی باہم متحد ہیں جہاں چین کی کمیونسٹ پارٹی نے قومی سلامتی کی آڑ میں سخت جمہوریت مخالف اقدامات کیے ہیں۔

بیجنگ کا اصرار ہے کہ یہ کسی طرح اس کے اندرونی معاملات ہیں جس میں دوسروں کو دخل اندازی کا کوئی حق نہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ شِنگ جینگ اور تبت میں نسلی و مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اس کا سلوک اور بہت سے دیگر اقدامات اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں جن کا بیجنگ تواتر سے حوالہ دیتا ہے۔ یہ اقدامات انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی خلاف ورزی بھی ہیں جس پر عمل کی ذمہ داری دنیا کے تمام ممالک پر عائد ہوتی ہے۔

بیجنگ کی جانب سے ہانگ کانگ میں آزادی کو کچلنے کے اقدامات اقوام متحدہ میں اس کی جانب سے جمع کرائے گئے معاہدے کے تحت اس کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہیں۔

ہم سب ان مسائل پر آواز بلند کر رہے ہیں اور صورتحال میں تبدیلی لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد چین کے خلاف کھڑا ہونا نہیں بلکہ ہم امن، سلامتی اور انسانی وقار کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔

یہ بات ہمیں اپنی حکمت عملی کے تیسرے عنصر کی جانب لے جاتی ہے۔ اندرون ملک سرمایہ کاری میں اضافے اور اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ہم آہنگی کی بدولت ہم اہم شعبوں میں چین کو پیچھے چھوڑنے کی بہتر پوزیشن میں آ گئے ہیں۔

مثال کے طور پر بیجنگ خود کو اختراع اور صنعت کے شعبوں میں دنیا کا مرکز دیکھنا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ دوسرے ممالک ٹیکنالوجی کے شعبے میں اس کے محتاج ہوں اور پھر ان کی اس محتاجی کو اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات مسلط کرنے کے لیے استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔ بیجنگ اس معاملے میں ہر ممکن قدم اٹھا رہا ہے۔ اپنی عسکری ایجادات کو ترقی دینے کے لیے جاسوسی، ہیک کرنے، ٹیکنالوجی چرانے اور معلومات لینے کے لیے ہماری معیشتوں کے کُھلے پن سے ناجائز فائدہ اٹھانا اس کی مثال ہے۔ اسی لیے جہاں ہم یہ یقینی بنا رہے ہیں کہ ایجادات کی دوسری لہر امریکہ اور ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کی جانب سے سامنے آئے وہیں ہم اپنی اختراع کی چوری اور اپنی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کیے جانے کی کوششوں کے خلاف بھی خود کو تحفظ دیں گے۔

ہم ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنی مسابقتی صلاحیت کو محفوظ بنانے کے ذرائع کو بہتر کر رہے ہیں۔ اس میں اپنی اختراعات کو غلط ہاتھوں میں پہنچے سے یقینی طور پر روکنے کے لیے نئے اور مضبوط برآمدی ضوابط، علمی تحقیق کے بہتر طور سے تحفظ کے اقدامات، سائنس کے لیے کُھلے، محفوظ اور معاون ماحول کا قیام، سائبر دفاع کی بہتر صلاحیت، حساس معلومات کا بہتر طور سے تحفظ اور سرمایہ کاری کی جانچ کے اقدامات کو بہتر کرنا شامل ہے تاکہ کاروباری کمپنیوں اور ممالک کو بیجنگ کی جانب سے حساس ٹیکنالوجی، معلومات یا اہم انفراسٹرکچر تک رسائی کی کوششوں، اپنے تجارتی سامان کی ترسیل کے نظام پر سمجھوتے یا اہم شعبوں میں چین کی بالادستی کے خلاف تحفظ دیا جا سکے۔

ہم سمجھتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ کاروباری برادری اس بات کو سمجھے گی کہ ہمیں اپنی بنیادی اقدار یا طویل مدتی مسابقت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنی بالادستی ختم کرنے کی قیمت پر چین کی منڈی تک رسائی حاصل نہیں کرنی۔ ہم کاروباروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ذمہ دارانہ طور سے ترقی کریں گے، خطرات کا سنجیدگی سے اندازہ لگائیں گے اوار ناصرف قومی سلامتی کو تحفظ دینے بلکہ اسے مضبوط بنانے کے لیے بھی ہمارے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

بہت طویل عرصہ تک چین کی کمپنیوں کو ہماری منڈیوں تک جس قدر بھرپور رسائی حاصل رہی ہے اتنی رسائی ہماری کمپنیوں کو چین میں نہیں ملی۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں چائنا ڈیلی پڑھنے یا وی چیٹ کے ذریعے دوسروں سے روابط کے خواہش مند لوگوں کے لیے ایسا کرنا بہت آسان ہے لیکن چین کے لوگوں پر نیویارک ٹائمز پڑھنے اور ٹویٹر استعمال کرنے پر پابندی ہے اور اس سے صرف وہی لوگ مستثنیٰ ہیں جو حکومت کے لیے کام کرتے ہیں اور انہیں پروپیگنڈہ کرنے اور غلط اطلاعات پھیلانے کے لیے ابلاغ کے ان ذرائع کو استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ چین میں کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کو باقاعدہ طور سے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی چین کی کمپنیوں کو منتقل کریں جبکہ امریکہ میں کام کرنے والی چین کی کمپنیوں کو ہمار قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ چین سے تعلق رکھنے والے فلم ساز اپنی فلموں کو امریکی حکومت کی جانب سے عائد کردہ کسی سنسرشپ کے بغیر امریکہ میں تھیٹر مالکان کو فروخت کر سکتے ہیں لیکن بیجنگ بہت سی غیرملکی فلموں کی اپنے ہاں نمائش کو سختی سے روکتا ہے اور جن فلموں کو نمائش کی اجازت ملتی ہے انہیں بڑے پیمانے پر سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ میں چین کے کاروبار اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ہمارے غیرجانبدار قانونی نظام کو آزادانہ طور سے استعمال کرتے ہیں اور درحقیقت وہ تواتر سے امریکی حکومت کے خلاف عدالت میں اپنے دعوے کر رہے ہوتے ہیں۔ تاہم چین میں غیرملکی کمپنیوں کو ایسی سہولت نہیں ملتی۔

یہ دوطرفہ نابرابری ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔

غور کیجیے کہ سٹیل کی منڈی میں کیا ہوا تھا۔ بیجنگ نے چینی کمپنیوں کو ضرورت سے زیادہ سرمایہ کاری کا حکم دیا جس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں سستے سٹیل کی بہتات ہو گئی۔ امریکہ اور منڈی کے اصولوں کے تحت چلنے والے دیگر ممالک کی کمپنیوں کے برعکس چین کی کمپنیوں کو منافع کمانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جب ان کے پاس سرمایے کی کمی ہوتی ہے تو انہیں ریاستی ملکیتی بینکوں سے مزید قرض مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ آلودگی پر قابو پانے یا اپنے کارکنوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے نہ ہونے کے برابر اقدامات کرتی ہیں جس سے ان کے اخراجات کم رہتے ہیں۔ نتیجتاً اب دنیا میں سٹیل کی نصف سے زیادہ پیداوار چین کے پاس ہے جو امریکہ، انڈیا، میکسیکو، انڈونیشیا، یورپ اور ہر خطے کی کمپنیوں کو اس منڈی میں پیچھے دھکیل رہا ہے۔

شمسی پینل اور برقی کاروں کی بیٹریوں کے شعبے میں بھی ہم یہی کچھ دیکھ چکے ہیں جو کہ 21ویں صدی کی معیشت کے اہم شعبے ہیں جن میں ہم مکمل طور سے چین پر انحصار کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

اس طرح کے معاشی استحصال نے امریکہ کے کارکنوں کو لاکھوں نوکریوں سے محروم کیا ہے۔ انہوں ںے دنیا بھر کے کارکنوں اور کاروباری اداروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہم منڈی میں خلل ڈالنے کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ ان میں امدادی قیمتیں اور منڈی تک رسائی میں رکاوٹوں جیسے اقدامات شامل ہیں جنہیں چین کی حکومت مسابقتی فوائد کے حصول کے لیے سالہا سال سے استعمال کرتی چلی آئی ہے۔ ہم اپنی صنعتی پیداوار ملک میں واپس لا کر یا ادویہ سازی اور اہم معدنیات جیسے حساس شعبوں میں دوسرے ممالک سے خام مال درآمد کر کے اپنے تجارتی ترسیلی نظام کا تحفظ اور مضبوطی بہتر کریں گے تاکہ ہمیں کسی ایک ترسیل کنندہ پر انحصار نہ کرنا پڑے۔

ہم معاشی جبر اور خوف کے خلاف ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ ہم یہ یقینی بنانے کے لیے کام کریں گے کہ امریکہ کی کمپنیاں ایسے کاروبار نہ کریں جن سے جبری مشقت سمیت انسانی حقوق کی پامالیاں کرنے والوں کو فائدہ پہنچتا ہو۔ مختصر یہ کہ ہم اپنے تمام ذرائع سے کام لیتے ہوئے امریکہ کے کارکنوں اور امریکہ کی صنعت کے لیے لڑیں گے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے شراکت دار بھی اپنے کارکنوں کے تحفظ کے لیے یہی کچھ کریں گے۔

امریکہ چین کی معیشت کو اپنی معیشت یا عالمی معیشت سے الگ نہیں کرنا چاہتا اگرچہ بیجنگ اپنی باتوں سے برعکس دنیا پر اپنا انحصار کم کرنے اور دنیا کا خود پر انحصار بڑھانے کے لیے غیرمتناسب تجارتی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم ایسی تجارت چاہتے ہیں جو شفاف اور منصفانہ ہو اور اس سے ہماری قومی سلامتی کو خطرہ نہ پہنچے۔ چین کے پاس مضبوط معاشی ذرائع ہیں جن میں انتہائی اہل افرادی قوت بھی شامل ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے کارکن اور ہماری کمپنیاں اس کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتی ہیں اور ہم منصفانہ شرائط پر اس مقابلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

اس لیے جہاں ہم ناجائز ٹیکنالوجی اور معاشی اقدامات کے خلاف ذمہ دارانہ طور سے مزاحمت کر رہے ہیں وہیں ہم امریکہ اور چین کو جوڑنے والے معاشی اور عوامی تعلقات برقرار رکھنے کے لیے بھی کام کریں گے اور یہ کام ہمارے مفادات اور ہماری اقدار کے مطابق ہو گا۔ ہو سکتا ہے بیجنگ اپنا طرزعمل تبدیل کرنے پر آمادہ نہ ہو۔ لیکن اگر وہ ہمارے اور بہت سے دیگر ممالک کی جانب سے سامنے لائے گئے خدشات پر ٹھوس انداز میں عمل کرے تو ہم بھی اس کا مثبت جواب دیں گے۔

مسابقت کو تنازعے کی صورت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ ہم ایسا نہیں چاہتے۔ ہم اس سے گریز کے لیے کام کریں گے۔ لیکن ہم ہر خطرے کے خلاف اپنے مفادات کا تحفظ کریں گے۔

اس مقصد کے لیے صدر بائیڈن نے محکمہ دفاع کو حکم دیا ہے کہ ہماری فوج کے معیار اور صلاحیت کو چین سے بہتر رکھنے کے اقدامات کیے جائیں۔ ہم ایک نئے طریقہ کار کے ذریعے اپنی یہ رفتار قائم رکھیں گے جسے ہم ”مربوط مزاحمتی قوت” کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے ہم تمام اتحادیوں اور شراکت داروں کو اپنے ساتھ ملائیں گے، روایتی و جوہری میدان، خلا اور اطلاعاتی شعبہ جات میں اکٹھے کام کریں گے اور معیشت، ٹیکنالوجی اور سفارت کاری کے میدان میں اپنی مشترکہ طاقت میں مزید اضافہ کریں گے۔

امریکی انتظامیہ فوجی شعبے میں اپنی سرمایہ کاری کو 20 ویں صدی کے تنازعات کےلیے بنائے گئے پلیٹ فارم سے ہٹا کر ایسے نظام کی جانب لے جانا چاہتی ہے جو طویل رسائی کا حامل ہو، جسے ڈھونڈنا مشکل اور جسے حرکت دینا آسان ہو۔ ہم فوجی کارروائیوں کے لیے رہنمائی کے حوالے سے نئے تصورات تیار کر رہے ہیں۔ ہم اپنی افواج کی ظاہری صورتحال اور دنیا بھر میں اس کی موجودگی کو متنوع بنا رہے ہیں، اپنے نیٹ ورک، اہم شہری تنصیبات اور خلائی اہلیتوں کو بھی بہتر کر رہے ہیں ہم خطے میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کو بھی ایسی ہی صلاحیتوں کے حصول میں مدد دیں گے۔

ہم جنوبی اور مشرقی چینی سمندروں میں بیجنگ کی جارحانہ اور غیرقانونی سرگرمیوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔ قریباً چھ سال پہلے ایک بین الاقوامی ٹربیونل نے قرار دیا تھا کہ جنوبی چینی سمندر پر بیجنگ کے دعوے بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہم علاقے کی ساحلی ریاستوں کو اپنے سمندری حقوق برقرار رکھنے میں مدد دیں گے۔ ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر جہازرانی اور فضائی سفر کی آزادی قائم رکھیں گے جس نے دہائیوں سے خطے کی خوشحالی ممکن بنائی ہے۔ جہاں کہیں بھی عالمی قانون اجازت دیتا ہے ہم وہاں فضائی اور سمندری سفر کرتے رہیں گے۔

دہائیوں سے اور تمام امریکی حکومتوں میں تائیوان کے مسئلے پر ہماری حکمت عملی یکساں رہی ہے۔ جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا، ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکہ تائیوان ریلیشنز ایکٹ، تین مشترکہ اعلامیوں اور چھ یقین دہانیوں کی بنیاد پر اپنی ”ایک چین” کی پالیسی سے بدستور وابستہ ہے۔ اس معاملے میں ہم کسی بھی فریق کی جانب سے موجودہ صورتحال میں کسی طرح کی یکطرفہ تبدیلیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتے اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ آبنائے تائیوں کے آر پار اختلافات پرامن طریقوں سے حل ہونے چاہئیں۔

آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام میں ہمارا مفاد برقرار ہے۔ ہم تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے تحت اپنے وعدوں پر قائم رہیں گے تاکہ تائیوان کو خاطرخواہ دفاعی صلاحیت برقرار رکھنے میں مدد دے سکیں اور جیسا کہ اس ایکٹ میں کہا گیا ہے ”طاقت کے استعمال یا جبر کی کسی اور صورت میں تائیوان کی سلامتی یا اس کے سماجی یا معاشی نظام کو خطرے میں ڈالنے کی کسی کوشش کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکے” تائیوان کے ساتھ ہمارے غیرسرکاری سطح پر مضبوط تعلقات ہیں۔ تائیوان خطے میں ایک پھلتی پھولتی جمہوریت اور معیشت ہے۔

ہم بہت سے باہمی مفادات اور اقدار پر تائیوان کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دیں گے، عالمی برادری میں تائیوان کی بامعنی شرکت کی حمایت کریں گے اور اپنی ”ایک چین” کی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے تائیوان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنائیں گے۔

ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جبکہ بیجنگ کی جانب سے جبر میں اضافہ ہو رہا ہے جو تائیوان کے دنیا کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو ختم کرنے اور اسے عالمی اداروں میں شرکت سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بیجنگ تائیوان کے خلاف زبانی اور عملی اشتعال انگیز اقدامات میں اضافہ کر رہا ہے جس میں تائیوان کے قریب پی ایل اے کے جہاز کی تقریباً روزانہ پروازوں جیسے اقدامات شامل ہیں۔ چین کے الفاظ اور اقدامات انتہائی عدم استحکام کا باعث ہیں اور ان سے غلط فہمی پیدا ہونے اور آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کی صورتحال خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ جیسا کہ ہم نے صدر بائیڈن کی ہند۔الکاہل میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ بات چیت میں دیکھا، آبنائے تائیوان میں امن و استحکام برقرار رکھنا صرف امریکہ کے مفاد میں نہیں بلکہ اس میں دنیا بھر کا مفاد ہے اور یہ علاقائی اور عالمی سلامتی و خوشحالی کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے۔

جیسا کہ صدر بائیڈن کہا کرتے ہیں، غیردانستہ طور پر چھڑنے والی جنگ دانستہ جنگ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ ہم نے بیجنگ کے ساتھ بحران صورتحال سے نمٹنے اور خدشات میں کمی لانے کے اقدامات پر ترجیحی بات چیت کی ہے۔ اس مسئلے اور تمام دیگر مسائل پر ہم سخت مقابلے کے ساتھ ساتھ سخت سفارت کاری کے لیے بھی پرعزم ہیں۔

سرمایہ کاری، ہم آہنگی اور مسابقت کی پالیسی کے ساتھ جہاں ہمارے مفادات یکساں ہوئے وہاں ہم بیجنگ کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ ہم باہمی اختلافات کو اپنے آگے بڑھنے اور ان ترجیحات کی راہ میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو ہم سے اپنے لوگوں اور پوری دنیا کی بہتری کے لیے اکٹھے کام کرنے کا تقاضا کرتی ہیں۔

اس کا آغاز موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے ہوتا ہے۔ چین اور امریکہ میں موسمیاتی تبدیلی پر بات چیت سالہا سال تک معطل رہی ہے جس نے ناصرف پوری دنیا کی اس مسئلے پر پیش ہائے رفت بلکہ ترقی کو بھی روکے رکھا۔ موسمیاتی مسئلے پر چین اور امریکہ کے مابین بات چیت 2013 میں شروع ہوئی جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر بھی اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پیش رفت کا آغاز ہوا جو پیرس معاہدے پر منتج ہوئی۔ گزشتہ سال سی او پی 26 کے موقع پر جب امریکہ اور چین نے میتھین سے لے کر کوئلے تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے خلاف اکٹھے کام کرنے کے لیے گلاسگو میں اپنا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تو دنیا کی امیدوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

موسمیات کا تعلق نظریے سے نہیں ہے۔ یہ ریاضیات کا معاملہ ہے۔ چین کے قائدانہ کردار کے بغیر موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ چین وہ ملک ہے جو دنیا بھر میں خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے 28 فیصد کا ذمہ دار ہے۔ توانائی کے عالمگیر ادارے نے واضح کر دیا ہے کہ اگر چین اپنے حالیہ منصوبوں پر قائم رہتا ہے اور 2030 تک اپنے ہاں ان گیسوں کے اخراج میں اضافہ نہیں کرتا تو بقیہ دنیا میں 2035 تک ان گیسوں کا اخراج ختم ہو جانا چاہیے۔ تاہم ایسا ممکن نہیں ہے۔

اس وقت دنیا میں 80 فیصد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار قریباً 20 ممالک ہیں۔ ان میں امریکہ کا دوسرا نمبر ہے۔ جب تک ہم سب مزید تیزی سے مزید اقدامات نہیں کرتے اس وقت تک موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کی مالیاتی اور انسانی قیمت تباہ کن ہو گی۔ علاوہ ازیں ماحول دوست توانائی اور ماحولیاتی پالیسی پر مسابقت ایسے نتائج دے سکتی ہے جن سے سبھی کو فائدہ پہنچے گا۔

اس معاملے میں امریکہ اور چین نے باہم مل کر جو پیش رفت کی اور جس میں گلاسگو اعلامیے کے تحت تشکیل دیا جانے والا ورکنگ گروپ بھی شامل ہے، وہ اس بحران کے بدترین نتائج سے بچنے میں ہماری کامیابی کے لیے بے حد اہم ہے۔ میں چین پر زور دیتا ہوں کہ وہ ان مشترکہ کوششوں کی رفتار تیز کرنے میں ہمارا ساتھ دے۔

اسی طرح کووڈ۔19 کے مسئلے پر ہمارا مقدر ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ ہماری ہمدردیاں چین کے لوگوں کے ساتھ ہیں جو اس وباء کی تازہ ترین لہر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہم نے بھی کووڈ میں شدید مصائب کا سامنا کیا ہے۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ تمام ممالک کو باہم مل کر پوری دنیا کے لیے ویکسین کا انتظام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ کسی فائدے یا سیاسی رعایات کے حصول کے لیے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہونا چاہیے کہ جب تک تمام لوگ محفوظ نہیں ہو جاتے اس وقت تک کوئی بھی ملک محفوظ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں تمام ممالک کو اس وائرس کی نئی اور دوبارہ جنم لینے والی اقسام کے بارے میں شفاف انداز میں معلومات اور نمونوں کو تبادلہ کرنا ہو گا اور ماہرین کو ان تک رسائی دینا ہو گی تاکہ حالیہ وباء کا مقابلہ کرتے ہوئے کسی آئندہ وباء کو روکنے کا اہتمام کیا جا سکے۔

جوہری عدم پھیلاؤ اور ضبطِ اسلحہ کے معاملے میں ان قوانین اور اصولوں اور معاہدوں کی پابندی میں ہم سب کا مفاد ہے جنہوں نے وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بننے والے ہتھیاروں کا پھیلاؤ محدود کرنے میں مدد دی ہے۔ چین اور امریکہ کو ایک دوسرے کے ساتھ اور دیگر ممالک کے ہمراہ کام کرنا ہو گا تاکہ ایران اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام سے لاحق خطرات کا سدباب کیا جا سکے۔ ہم اس مسئلے پر جوہری طاقتوں کی حیثیت سے اپنی متعلقہ ذمہ داریوں کے بارے میں بیجنگ کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

غیرقانونی منشیات خصوصاً فیٹانائل، جو گزشتہ سال ایک لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکتوں کا باعث بنی، جیسی مصنوعی افیون سے نمٹنے کے لیے ہم چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ منشیات فروشی میں ملوث عالمی تنظیموں کو منشیات میں استعمال ہونے والے بنیادی نوعیت کے ایسے کیمیائی مادوں کے حصول سے روکا جائے جن میں بہت سے چین میں بنائے جاتے ہیں۔

عالمگیر غذائی بحران دنیا بھر میں لوگوں کے لیے خطرہ بن رہا ہے اور ایسے میں ہم اس کے خلاف اقدامات کے لیے چین کی جانب دیکھ رہے ہیں جس نے زرعی شعبے میں بہت بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں امریکہ نے عالمگیر غذائی تحفظ کو بہتر بنانے کے لیے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس کا انعقاد کیا تھا۔ ہم نے چین کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ ہم ایسے اقدامات جاری رکھیں گے۔

اب جبکہ دنیا کی معیشت وباء کے تباہ کن اثرات سے بحال ہو رہی ہے تو امریکہ اور چین کے مابین جی20، آئی ایم ایف، دیگر فورمز اور یقیناً دوطرفہ طور پر بڑے معاشی مسائل کے حوالے سے تعاون بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں ہونے کے ناطے ہمارے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔

مختصر یہ کہ جہاں ممکن ہوا وہاں ہم چین کے ساتھ تعمیری طور پر کام کریں گے۔ اس کا مقصد خود کو یا کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانا نہیں اور نہ ہی اس میں ہم اپنے اصولوں کو ترک کریں گے۔ اس کے بجائے ہمارے باہمی تعاون کا مقصد دنیا کو درپیش بہت بڑے مسائل کو حل کرنا ہے کیونکہ دنیا دو عظیم طاقتوں سے یہی توقع رکتی ہے اور ایسا کرنا ہمارے براہ راست مفاد میں ہے۔ کسی ملک کو موجودہ بین الاقوامی مسائل پر پیش رفت کو محض باہمی اختلافات کی بنیاد پر روکنا نہیں چاہیے۔

عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے لاحق مسئلے کا حجم اور وسعت امریکہ کی سفارت کاری کا اس انداز میں امتحان لیں گے جس کا ہم نے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔ میں دفتر خارجہ اور اپنے سفارت کاروں کو ایسے ذرائع مہیا کرنے کا عزم رکھتا ہوں جن کی انہیں میرے جدید کاری کے ایجنڈے کے تحت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضرورت ہے۔ اس میں دفتر خارجہ میں چائنا ہاؤس کے نام سے ایک مربوط ٹیم کی تشکیل بھی شامل ہے جو حسب ضرورت کانگریس کے ساتھ کام کرتے ہوئے مختلف مسائل پر اور مختلف خطوں کے حوالے سے ہماری پالیسی کو مربوط کرنے اور اس پر عملدرآمد میں مدد دے گی۔ یہاں مجھے یہ بتانا ہے کہ بیجنگ میں اور پورے چین میں قائم ہمارے قونصل خانوں میں سفیر نِک برنس کے زیرقیادت ایک غیرمعمولی ٹٰیم کام کر رہی ہے۔ یہ لوگ روزانہ بنیادوں پر غیرمعمولی کام کرتے ہیں اور ان میں بہت سے لوگ حالیہ ہفتوں میں کووڈ کے سبب سخت لاک ڈاؤن میں بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انتہائی شدید حالات کے باوجود وہ ڈٹے رہے ہیں۔ ہم اس شاندار ٹیم کے مشکور ہیں۔

میں امریکہ کی سفارت کاری کی طاقت اور مقصد نیز اس فیصلہ کن دہائی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی صلاحیت کے بارے میں کبھی اس قدر زیادہ پُریقین نہیں رہا۔ مجھے امریکہ کے لوگوں سے کہنا ہے کہ آئیے اپنی بنیادی طاقت، اپنے لوگوں، اپنی جمہوریت اور اپنے تخلیقی جذبے کو مضبوط بنانے کا دوبارہ عہد کریں۔ جیسا کہ صدر بائیڈن اکثر کہا کرتے ہیں، امریکہ کے خلاف شرط لگانا اچھا نہیں ہوتا۔ تاہم آئیے خود پر شرط لگائیں اور مستقبل کا مقابلہ جیتیں۔

مجھے کھلے، محفوظ اور خوشحال مستقبل کے لیے پُرعزم دنیا بھر کے ممالک سے یہ کہنا ہے کہ آئیے ان اصولوں کو قائم رکھنے کے مشترکہ مقصد کے لیے کام کریں جو ہماری مشترکہ کامیابی کو ممکن بناتے ہیں اور ہر ملک کے اپنا مستقبل خود متعین کرنے کے حق کے لیے کھڑے ہوں۔ میں چین کے لوگوں سے یہ کہوں گا کہ ہم پُراعتماد انداز میں مقابلہ کریں گے، جہاں ممکن ہوا وہاں ہم ایک دوسرے تعاون کریں گے اور جہاں ضروری ہوا وہاں مسابقت کریں گے۔ ہم تنازع نہیں چاہتے۔

ایسی کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے عظیم ممالک پُرامن طور سے ایک دوسرے کے ساتھ نہ چل سکیں اور باہم مل کر انسانی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا نہ کر سکیں۔ میں نے آج جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے کہ ہمیں انسانی ترقی کا عمل آگے بڑھانا ہے اور اپنے بچوں کو ایک ایسی دنیا دینی ہے جو پہلے سے زیادہ پُرامن، خوشحال اور آزاد ہو۔

میری بات سننے پر آپ سبھی کا بہت شکریہ۔ (تالیاں۔)


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/the-administrations-approach-to-the-peoples-republic-of-china/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔