قائمقام نائب وزیر ایلس ویلز برائے جنوب اور وسط ایشیائی اُمور "چین -پاکستان اقتصادی راہداری” دی وِلسن سینٹر

قائمقام نائب وزیر ایلس ویلز
برائے جنوب اور وسط ایشیائی اُمور
"چین -پاکستان اقتصادی راہداری”
دی وِلسن سینٹر
۲۱ ِ نومبر ، ۲۰۱۹ ء

جناب کوگل مین: سہ پہر بخیر حاضرین۔ آج یہاں تشریف لانے کا شکریہ۔ میرا نام مائیکل کوگل مین ہے۔ میں یہاں ولسن سینٹر میں بطور سینیئر معاون برائے جنوب ایشیائی اُمور کام کرتا ہوں۔ ہم امریکی محکمہ خارجہ کی پرنسپل نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوب اور وسط ایشیا سفیر ایلس ویلز کا خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ سفیر ویلز آج چین کے بیلٹ روڈ انیشیئٹو یعنی "بی آر آئی” اور خاص طور پر اس کے پاکستان والے حصہ چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے بارے میں گفتگو کے لیے ہمارے ساتھ موجود ہیں۔
سی پیک متعدد وجوہات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں امریکہ کی جغرافیائی حکمت عملی میں نمایاں اہمیت کے حامل دو ممالک شامل ہیں۔ متعدد نئے منصوبوں کے آغاز کے ساتھ سی پیک وسیع تجارتی سرگرمی بی آر آئی کے فعال ترین اجزاء میں سے ایک ہے۔ یہ امریکہ کے سب سے بڑے تزویراتی حریف کی جانب سے ایک ایسے ملک میں اپنی توسیع پسندانہ سرمایہ کاری اور اثر رسوخ بڑھانے کی کارروائی بھی ہے جہاں پر واشنگٹن کی موجودگی اور پسندیدگی کا رجحان نسبتا ً کم ہے۔
ساتھ ہی ساتھ مالی معاونت اور شفافیت کے امور اور دیگر حقائق پر مبنی باعث ِتشویش عناصر کے پیش نظر سی پیک چین اور پاکستان کے لیے مالیاتی خطرہ بھی ہے۔ روایتی طور پر سینیئر امریکی عہدیدار بی آر آئی اور سی پیک کے موضوع پر یوں سر عام گفتگو نہیں کرتے اس لیے یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اِس سہ پہر سفیر ویلز سی پیک کے بارے میں امریکی تناظر بیان کرنے کے لیے ہمارے ساتھ موجود ہیں اور ہم اُن سے مستفید ہونے کے منتظرہیں۔
یہاں پر مختصرًا میں ولسن سینٹر کا تعارف کرواتا چلوں ۔ ولسن سینٹر سنہ ۱۹۶۸ ء میں امریکی کانگریس کی جانب سے صدر ووڈرو ولسن کی یاد میں قائم کیا گیا ۔ ہم پالیسی ساز وں کے لیے بین الاقوامی امور پر غیر جانبدارانہ تحقیق اور عوامی مباحثہ کے ذریعہ قابل عمل خیالات پیش کرنے والا خود مختار قومی ادارہ ہیں، ہم پالیسی ساز اور دانشورطبقہ کے درمیان فاصلے کم کرنے پر کام کر رہے ہیں ، صدرووڈرو ولسن، کے بارے میں آپ کو شاید یہ علم ہوواحد امریکی صدر تھے جو پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل تھے۔
آخرمیں ،میں ولسن سینٹر کے کیسنجر ادارہ برائے امور امریکہ و چین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، جو کہ آج کی تقریب میں ہمارے شریک معاون ہیں۔
اب میں نظامت اپنے ساتھی اور دوست سفیر بِل مائلم کے حوالے کروں گا کہ وہ سفیر ویلز کا تعارف کرائیں اور اس تقریب کی نظامت کریں۔ بِل یہاں ولسن سینٹر میں سینیئر معاون ہیں۔ وہ ریٹائر سینیئر امریکی سفارتکار ہیں۔ وہ پاکستان سمیت متعدد ممالک میں بطور سفیر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ تو آپ کی جانب بِل۔
میزبان: آپ کا شکریہ مائیکل ۔
آج مجھے خوشی ہے کہ وہ گھڑی آن پہنچی ہے کہ جس کا میں شدت سے منتظر تھا لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہ عمل جلد یابدیرہوگاضرور۔ میں سفیر ویلز کو متعارف کرواتاہوں جو پرنسپل نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوب اور وسط ایشیائی امور ہیں۔ تو میں اس سلسلہ میں تھوڑی سی وضاحت کروں گا۔
میری ان سے سنہ ۱۹۹۸ ء میں جان پہچان ہوئی تھی اور شاید اس کے کچھ ہی گھڑیوں کے بعد مجھے یہ خیال آیا کہ کسی دن میں اس خاتون کو بڑے مجمع کے سامنے متعاوف کروا رہا ہوں گا۔ جنوب اور وسطی ایشیائی اُمور بیور کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے وہ اُردن میں سفیر تھیں۔ انہوں نے متعدد خدمات سر انجام دی ہیں، میرا خیال ہے کہ آپ کے پاس ا نکا شخصی خاکہ ہوگا اس لیے میں ان تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا، لیکن انہوں نے واشنگٹن میں بہت فرائض انجام دیئے ہیں اور میری جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو وہ اسلام آباد سفارتخانہ کے شعبہ سیاسی امور کا ایک چمکتا ستارہ تھیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ میری گفتگو میں دلچسپی نہیں رکھتے تو ایلس اب آپ کی باری ہے۔
سفیر ویلز: میں ووڈرو ولسن سینٹر میں گفتگو کا موقع ملنے پر مشکور ہوں اور میں اس کے صدر ہارمن کی قیادت کی تعریف کرتی ہوں۔ میں یقینی طور پر قومی سلامتی کے متعدد پیشہ ور افراد ، مرد اور خواتین، میں سے ہوں، جو اُن کے عزم اور قومی خدمات سے بے حد متاثر ہیں۔
اور میرے لیے سفیر مائلم کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھنا بھی باعث اعزاز ہے جو کہ میرے افسر تھے اور یہ بھی اضافہ کرتی چلوں کہ وہ بہت سخت افسر جنہوں نے دفتری امور سیکھنے میں میری مدد کی۔ میں بہت شکر گزار ہوں۔
مائیکل کوگل مین کی جانب سے مجھے یہاں لانا بھی زبردست تھا کیونکہ یہ وہ شخصیت ہیں کہ جن کی تحریریں خطہ کے بارے میں ہمارے فہم کو مالامال کرتی ہیں۔ اس لیے آپ کا بھی شکریہ۔
میرے خیال میں یہ ایک انتہائی کلیدی اہمیت کا حامل مباحثہ ہے جو کہ فرضی طور پر توترقی کے ماڈلز پر ہے ،در حقیقت یہ کسی بھی قوم کی متوقع خود مختاری اور آزادی کےمتعلق ہے جس سے اس کے شہری لطف اٹھا سکتے ہیں اوراس معاملہ میں امریکہ کا مؤقف انتہائی واضع ہے۔ بہتر نظم و نسق، طویل المیعاد تربیت سازی اور مارکیٹ پالیسیاں۔ یہ سارے عوامل نجی شعبہ کی ترقی کی حوصلہ افزائی اور پائیدار ترقی اور ارتقاء کے لیے ضروری ہیں۔یورپ سے جاپان تک ایشین ٹایگرز سے بھارت تک، ترقیاتی عمل کے بارے میں امریکہ کے اس نقطۂ نظر نے دوسری عالمی جنگ کے بعد بے مثال اقتصادی وسعت کو تحریک دی، جس کے نتیجہ میں اربوں لوگ غربت کے دلدل سے باہر آئے ۔
جیسا کہ سیکریٹری پومپیو نے گزشتہ مہینے فرمایا تھا ، اِس ترقی کی اساس آزاد اور شفاف بین الاقوامی نظام ہے جو امریکہ نے وضع کرنے میں مدد کی اور اس کی بنیاد شفاف، مسابقتی، منڈی پر مبنی نظام ہے جو تما م فریقوں کے لیے فائدہ مند ہو ۔
بین الاقوامی قوانین او رروایات پر مبنی امریکی سرکردگی میں اس نظام کے ثمرات سے مستفید ہونے والے یقینی طور پر چین کے شہری ہیں۔
۱۹۷۸ ء میں ڈینگ زیاؤپنگ نے اوپن ڈور پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے غیر ملکی کمپنیوں کی چین میں تجارت اور سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا اور غیر ملکی تجارتی اداروں کی حوصلہ افزائی کے لیے فوری تجارتی بنیادوں پر مبنی اصلاحات کا نفاذ کیااور امریکی، یورپی اور جاپانی کمپنیوں نے فنی سہولیات اور مہارتوں کو بروئے کار لاکر چینی عوام کی شاندار معاشی ترقی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ لیکن شاید وہ اپنے ساتھ قانون کی پاسداری کرنے والی بین الاقوامی معیشت میں کام کرنے کی مشقت اور تقاضے بھی لیکر آئیں تھیں۔
چین میں بطور سب سے بڑا سرمایہ کار امریکہ نے ہمیشہ شاندار نتائج کا خیر مقدم کیا ہے۔ سنہ ۱۹۸۱ ء سے لیکر چین میں شدید غربت کی شرح ۸۸ اعشاریہ تین سے کم ہو کر آج ایک اعشاریہ نو رہ گئی، ۸۵ کروڑ سے زیادہ چینی باشندوں کو غربت سے نجات ملی۔جیسا کہ سیکریٹر ی نے کہا تھا کہ ہم امریکیوں کی چینی باشندوں کے ساتھ دیرینہ دوستی رہی ہے۔لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں یا ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی چین کے عام شہریوں کی طرح نہیں ہے۔
آجکل ہم دیکھ رہے ہیں کہ چینی کمیونسٹ پارٹی ترقیاتی عمل کے اپنے برانڈ کی تشہیر کر رہی ہے جس کو ون بیلٹ ون روڈ ( او بی او آر) قدم کہا جا رہا ہے یا پھر جیسا کہ مذکورہ پارٹی کے جنرل سیکریٹری نے کہا تھا کہ ” یہ اس صدی کا منصوبہ ہے۔”دنیا بھر میں، خاص طور پر میرے حلقہ ء ذمہ داری میں، ہم نے بیجنگ کو دوسرے ملکوں پر او بی او آر کے معاہدوں پر زبردستی دستخط کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے دیکھا ہے اور ان معاہدوں کو امن، تعاون، شفافیت، شمولیت، باہمی تعلیم اور ہر دوفریق کی کامیابی قراردیا جاتا ہے۔یقیناً یہ نظریہ زبردست ہےاور ان حکومتو ں کو پرکشش لگتا ہے جو ان گنت ترقیاتی مسائل کا شکار ہیں اور ترقیاتی ڈھانچے کی ضروریات رکھتے ہیں۔ اور امریکہ میں ہمیں اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے اور ہم واقعی خیر مقدم کرتے ہیں کسی بھی سرمایہ کاری اور تجارت کا جو پائیدار، ذمہ دار ترقی اور ترویج کی ضامن ہو۔
لیکن گزشتہ کچھ برسوں کے دوران او بی او آر پر عملدرآمد کا مشاہدہ کرنے کے بعد، چینی کمیونسٹ پارٹی کی اس فیاضی کے بارے میں سوال اٹھانے کے جواز پیدا ہوتے ہیں۔مثال کے طور، چین مناسب مالی وسائل ، اکثر بطور قرضہ، فراہم کرتا ہے لیکن بیجنگ پیرس کلب کا رکن نہیں ہے اور نہ ہی اس نے کبھی قرضہ دینے کا بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ طریقہ ہائے کار اختیار کیا ہے۔ کیل انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ تخمینہ کے مطابق، کمیونسٹ چین دنیا بھر میں پانچ کھرب ڈالر قرضہ دے کر، دنیا کا سب سے بڑا قرضہ دینے والا ملک ہے، لیکن چین نہ تو قرضہ دینے کے بارے میں اعدادوشمار شائع کرتا ہے یا رپورٹ جاری کرتا ہے۔ لہٰذانہ تو درجہ بندی ادارے، نہ پیرس کلب اور نہ ہی آئی ایم ایف اِس مالیاتی لین دین کی نگرانی کر سکتے ہیں۔
اب چینی کمیونسٹ پارٹی عہدیدار شفافیت اور احتساب کی زبان استعمال کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ عوامی جمہوریہ چین پالیسی سازی میں بہتری ، مالیاتی بحران کی رو ک تھام اور کرپشن کے خاتمہ کی غرض سے شفافیت کے عمل میں بہتری کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت بین الاقوامی کوششوں کے دائرہ کار سے باہر کھڑا ہےاورشفافیت کی عدم موجودگی پہلے سے ہی قابل قدر مالی بحران کا شکار اِن قرضہ لینے والے ممالک کو درپیش خطرات کو بھی چھپا لیتی ہے ، خاص طور پر او بی اوآر منصوبوں پر عملدرآمد کرنے والی چینی کمپنیوں کو لاگت میں اضافہ اور بدعنوانی کی حوصلہ افزائی کی بھی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ۔ ان بڑے قرضوں کی ادائیگی میں ناکامی مزید ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ساتھ ساتھ دفاعی اثاثہ جات کو حوالہ کرنے اور قومی سلامتی کو ختم کرنے کی صورت میں نکلتے ہیں۔
میں کچھ حقیقی دنیا کے مثالیں پیش کرنا چاہوں گی۔مالدیپ کے سابق صدر یامین کی انتظامیہ نے چینی کمپنیوں کوشفاف نیلامی کے بغیر زیادہ قیمتوں پر چینی کمپنیوں کو تعمیراتی ذمہ داریاں سونپیں۔ تو، جیسا کہ مالدیپ ایئرپورٹ کمپنی نے بھارتی کمپنی سے عجلت میں معاہدہ ترک کر کےرن وے تعمیر کرنے کا ٹھیکہ بغیر نیلامی کے ۴۰۰ ملین ڈالر میں چین کی بیجنگ شہری تعمیراتی کمپنی کو دے دیا، بعد ازاں بھارتی کمپنی نے مقدمہ کر کے ۲۷۰ ملین ڈالر جرمانہ بھی وصول کیا تھا۔ اس چینی منصوبہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانچ لاکھ سے کم لوگوں کا ملک مالدیپ اب بے تحاشا قرضوں تلے دب چکا ہے جو کہ مالدیپ کی آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی بوجھ تلے دبائے ہوئے ہے اور اس کے بیرونی قرضوں کا آدھا حصہ چینی قرضہ داروں کا ہے۔
سری لنکا میں متعدد فزیلبیلٹی رپورٹوں میں ہمبنٹوٹا میں بڑے پیمانے پر پورٹ کی سہولت کی تجارتی طور پر قابل عمل نہ ہونے کے باوجود چین آگے آیا اور حکومت کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ فراہم کیا۔ نتیجہ کیا نکلا: سری لنکا نے ان قرضوں کو اتارنے کی کوشش کی اوربالآخر اس قرضے کے عوض یہ پورٹ چین کو ۹۹ سال کے پٹہ پرگروی رکھ دی۔
ہم نے سری لنکا میں چینی قرضوں سے مکمل متعدد منصوبوں کو کھوکھلا اور بیکار دیکھا ہے، جس میں ۱۰۴ ملین ڈالر سے بنا مواصلاتی ٹاور اور جنوبی حصہ میں ۲۰۹ ملین ڈالر سے تعمیر شدہ ایئرپورٹ بھی شامل ہے جس پر معمول کی طے شدہ پروازوں کی آمد و رفت کی شرح صفر ہے۔ در حقیقت، مرکز برائے بین الاقوامی ترقی نے ۲۰۱۸ ء میں دریافت کیا کہ اوبی اوآر وصول کرنے والے آٹھ ممالک، بشمول پاکستان، مالدیپ، تاجکستان اور کرغستان چینی مالی معاونت کی وجہ سے قرضوں کے دباؤ میں چلے جانے کے خطرہ سے دوچار ہیں ۔ ایک مثال کے مطابق قرضوں کی عدم ادائیگی کے باعث ڈوبنے کے خطرہ کے باعث، برما کےحکام نے رکھائن ریاست میں گہرے سمندر میں بندرگاہ کی تعمیر کا منصوبہ میں ۸۰ فیصد کٹوتی کی- سات اعشاریہ تین ارب ڈالر سے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کردیا۔ دنیا کے دوسرے علاقوں میں چین کے مصیبت آمیز اقدامات دیکھ کر برما کے حکمرانوں نے سابقہ حکومت کے بقایا اقدامات کو بھی ختم کردیا۔
اب اوبی آئی آر کا علمبردار چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک ہے۔ سی پیک چینی کمیونسٹ پارٹی کا سب سے بڑا اوبی آئی آر اقدام ہے، جس میں پاکستان کے اندر علاقائی عزم کے تحت ۶۰ ِ ارب ڈالرمالیت کا علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے ۔ پاکستان میں چین کے سفیر یاؤ جِنگ نے متعدد بار سی پیک کو بارہا پاکستان کے لیے "گیم چینجر” قرار دیا ہے۔ در حقیقت چینی سفیر نے کہا ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کے لیے مثال کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔
اب یہ حقیقت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ مالدیپ اور سری لنکا کی طرح پاکستان میں بھی سی پیک کے چار سال بعد عوام نے سخت سوالات پوچھنا شروع کردیے ہیں کہ ان کی سابقہ حکومت نے کمیونسٹ چین سے کس قسم کے معاہدے کیے اور پاکستان کوان سے کیا ملا۔
پاکستان کی سابقہ حکومت کی جانب سے سی پیک کے معاہدوں میں آگے بڑھنے کا سبب قابل فہم ہے۔ خطہ کےدوسرے ملکوں کی طرح، پاکستان کی بھی بڑے پیمانہ پر بنیادی ڈھانچہ اور ترقیاتی ضروریات ہیں اور سامعین میں شامل میرے بہت سے احباب جنہوں نے پاکستان میں وقت گزارا ہے وہ ذاتی طور پرپاکستان میں توانائی بحران کو بھگت چکے ہیں۔
پاکستان ان سوالوں کا جواب دینے میں آزاد ہے لیکن میں لاگت، قرضہ، شفافیت اور ملازمتوں کے حوالہ سے کچھ مشاہدات بیان کرنا چاہوں گی۔
لاگت کا معاملہ : حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق، سی پیک کے تحت تیار ہونے والے ہر میگاواٹ تھرمل توانائی کے بدلے ، پیداواری کمپنی ڈیڑھ ملین ڈالر خرچ کرتی ہے ۔ اس کے برعکس، غیر سی پیک تھرمل پاور پلانٹ میں فی میگاواٹ لاگت اس کا آدھا یعنی ۷۵۰ ملین ڈالر ہے۔
اسی طرح ، سی پیک کا سب سے زیادہ مہنگا منصوبہ کراچی تا پشاور تک ریلوے کو اپ گریڈ کرنا ہے۔شروع میں منصوبہ کے اعلان کے وقت اس کی لاگت کا تخمینہ آٹھ اعشاریہ دو ارب ڈالر تھا ۔ اکتوبر ۲۰۱۸ ء میں پاکستان کے وزیر ریلوے نے اعلان کیا کہ انہوں نے قیمت کم چھ اعشاریہ دو ارب ڈالرطےکی ہے یعنی دو ارب ڈالر کی بچت اور انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور ہم ان قرضوں کا بھاری بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن ذرائع ابلاغ کی حالیہ اطلاعات کے مطابق اب لاگت بڑھ کر نو ارب ڈالر ہو چکی ہے۔ تو پاکستان کی عوام سی پیک کے سب سے مہنگے منصوبے کی قیمت کیوں نہیں جانتے یا یہ کہ اس کو کس طرح سے طے کیا جا رہا ہے؟
قرض کا معاملہ: چینی مالی اعانت کے طریقہ ہائے کار کے پاکستان میں دور رس اثرات کیا ہیں؟ اور پندرہ ارب ڈالر چینی حکومت کے قرض اور چھ اعشاریہ سات ارب ڈالر اضافی چینی کاروباری قرضوں سمیت کون سا نیا بوجھ نئی حکومت پر سنبھالنے کے لیے گرا ہے ؟ کیوں کہ یہ واضح ہے اور یہ واضح ہونا بھی چاہیے کہ سی پیک میں آنے والا پیسہ امداد نہیں ہے۔ یہ لگ بھگ قرضوں اور دیگر مالی معاونت، اکثر بغیر رعایت کے، خود مختار ضمانتوں کے ساتھ، یا چینی سرکاری کمپنیوں کے لیے منافع کی ضمانتوں پر مبنی ہے ، اور یہ سرمایہ واپس چین ارسال کیا جائے گا۔
اب نان سی پیک چینی قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ ، چین پاکستان کی معیشت پر اضافی بوجھ ڈالنے والا ہے ، خاص طور پر جب اگلے چار سے چھ سالوں میں زیادہ تر ادائیگیوں کا سلسلہ شروع ہوگا ۔ حتی ٰ کہ اگر قرضوں کی ادائیگی ملتوی بھی کردی گئی تو بھی وہ وزیر اعظم عمران خان کے اصلاحاتی ایجنڈے سمیت پاکستان کی معاشی ترقی کی صلاحیت میں رکاوٹ پید اکرےگی۔
شفافیت کا معاملہ، شفافیت کی کمی کے باعث سی پیک کے اخراجات میں اضافہ اور بدعنوانی کو فروغ مل سکتا ہے جس کے نتیجہ میں پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا۔
مثال کے طور پر ، گزشتہ سال پاکستانی سینیٹ کمیٹی کی ایک رپورٹ کے اندر حال ہی میں افتتاح کردہ سکھر- ملتان موٹر وے کی تعمیر کے لیے ٹھیکہ کی بولی لگانے کا کنٹرولڈ طریقہ اختیار کرنے پر اظہار تشویش کیا گیا ۔ کمیٹی کے مطابق ، بیجنگ نے صرف تین کمپنیوں – تمام چینی- کو اس ٹینڈرمیں شرکت کی اجازت دی تھی ، جبکہ اس پورے منصوبہ کے لیے سرمایہ ایک چینی قرض کے ذریعہ مہیا کیا گیا ، جس کا بوجھ مکمل طور پر پاکستانی عوام نے اٹھایا ۔
شفافیت کی عدم موجودگی کے پشِ نظر ، اور اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کہ سڑک کی تعمیر کایہ منصوبہ پچھلی حکومت کے عہدیداروں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کا موضوع بنا ہوا ہے جس میں قیمتوں میں بے جا اضافہ اور فنڈز کے ناجائز استعمال کے الزامات بھی شامل ہیں۔ دریں اثنا ، چین اسٹیٹ کنسٹرکشن انجینئرنگ کارپوریشن نے ، جس کو معاہدہ سے نوازا گیا تھا ، بدعنوانی کے بے بنیاد الزامات پر انتہائی حیران ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے زور دیا کہ مذکورہ کمپنی ہر دو فریق کے لیے فائدہ کے جذبہ سے پاکستان آئی ہے۔ لیکن یادرہے کہ سنہ ۲۰۰۹ ء میں ، پاکستان میں ٹھیکہ سے نوازے جانے سے محض کچھ سال قبل ، اسی چینی سرکاری کمپنی پر ورلڈ بینک کے منصوبوں پر کام کرنے پر چھ سال کے لئے پابندی عائد کردی گئی تھی ، جس کا سبب بینک کی جانب سے اس کو بولی لگانے کے طریقہ میں گروہی ہتھکنڈوں ، دوسرے الفاظ میں بدعنوانی، میں ملوث قرار دیا جانا تھا۔ اور یہ صرف اس قسم کی ایک مثال ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے قومی احتساب بیورو میں سی پیک سے متعلق متعدد تحقیقات جاری ہیں۔
نئی پاکستانی حکومت بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کو ترجیح قراردیتی ہے ، لیکن حال ہی میں اعلان کردہ سی پیک اتھارٹی کو بدعنوانی کے مقدمات سے استثنیٰ حاصل ہے۔ ایک بار پھر ، پاکستان کی ترقی کے خواہاں لوگ سخت سوالات اُٹھارہے ہیں۔
آخر میں ، ملازمتوں کا معاملہ ۔ یہاں پر بھی ہمیں مانوس چینی جملہ ہر دوفریق کا تعاون اور جیت سننے کو ملتا ہے ۔ لیکن در حقیقت، سی پیک پاکستان میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے باجود بھی بنیادی طور پر چینی کارکنوں اور رسد پر انحصار کرتا ہے۔ اور ان منصوبوں کے لیے چینی کمپنیاں بجائے مقامی پاکستانی کمپنیوں کو تجارت کا موقع دینے کے ،ساز وسامان بھی چین ہی سے درآمد کر رہی ہیں ، جو حقیقت میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا سبب بن سکتی تھیں۔
سی پیک چین کے مزدوروں کو پیسہ کمانے اور پیسہ واپس چین بھیجنے کے لیے پاکستان میں لا رہا ہے، اور مقامی معیشت میں تھوڑا بہت ہی بچتا ہے۔
اب پاکستان میں چینی مزدوروں کی موجودگی کے بارے میں چین کے اعدادوشمار پر آتے ہیں کہ وہ اتنے متضاد اور اتنے ناقابل بھروسہ ہیں کہ ہمیں حقیقت میں نہیں معلوم کہ وہاں پر کتنے چینی باشندے کام کر رہے ہیں۔ لیکن یہ صورتحال اس لیے بھی غیر معمولی ہے کیونکہ پاکستان میں نوجوان، پُرجوش اور اہل کارکنوں کی کثرت ہے۔ یو این ڈی پی کے مطابق ۶۴ فیصد آبادی ۳۰ سال سے کم عمر ہے۔ وہ پاکستان کا مستقبل ہیں اور مواقع حاصل کرنے کے لیے ترس رہے ہیں۔
لہٰذا جب ہم سی پیک کا تجزیہ کرتے ہیں تو میں آپ کو یہ تضاد ذہن نشین کرنے کی درخواست کروں گی۔ کمیونسٹ چین کےاپنے معاشی عروج کی شروعات گہری اصلاحات سے ہوئیں جن کے باعث کاروباری ماحول بہتر ہوا اورامریکہ ، یورپ اور جاپان جیسی جگہوں غیر ملکی کمپنیوں کو راغب کیا گیا۔ اور ان امریکی ، یورپی اور جاپانی کمپنیوں نے مقامی چینیوں کو تربیت دی جو بدلہ میں چین کو دیو قامت صنعتی معیشت بنانے میں کامیاب ہوگئے جو وہ آج ہے۔
سی پیک سے پاکستانی نوجوانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اِس سے پاکستانی کمپنیوں کو وہ یکساں مواقع میسر ہوتے ہیں جن سے چینیوں نے خود کئی دہائیاں قبل فائدہ اٹھایا اور عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات غیر متوازن ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
سنہ ۲۰۱۸ ء میں چین کی جانب پاکستان کی برآمدات ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر مالیت کی تھیں جبکہ چین سے پاکستان کی درآمدات مجموعی طور ۱۴ ِ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر تھی ۔

اب ذرا غور کریں کہ ایک مختلف ماڈل بھی وجود رکھتا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کی تجارتی ترقی کی شراکت سی پیک سے قدر مختلف ہے۔ امریکی کاروبار مستحکم معاشی ترقی میں کردار ادا کرنے کی جستجو کرتا ہے اور امریکی حکومت کی جانب سے دی گئی گرانٹس – اور میں زور دے کر کہہ رہی ہوں کہ گرانٹس– نے تعلیم ، صحت ، توانائی ، زراعت اور قانون نافذ کرنے والے نظام میں پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ اور کارکردگی بہتر کی ہے۔ دنیا بھر میں ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی کمپنیاں اپنے ساتھ مالی سرمایہ سے بڑھ کر ثمرات لاتی ہیں ۔ وہ اقدار ، طریقہ کار اور مہارتیں لاتی ہیں جن سے مقامی آبادیوں کی استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر ، قزاقستان میں ، شیورون اور ایکسن موبل نے مقامی افراد کو فنی تربیت کے ذریعہ مقامی مزدوروں کو زیادہ سے زیادہ روزگار دینے کے لیے اعانت کی ۔ تربیت ، ڈرلنگ ، منصوبہ نگرانی اور تخمینہ لاگت سمیت افرادی قوت تیاری کا جامع منصوبہ دیا ۔ در حقیقت ، دونوں کمپنیوں نے قزاقستان میں اپنے مجموعی ملازمین کی تعداد میں ۸۰ فیصد سے زیادہ مقامی افراد کو ترجیح دی ۔ بنگلہ دیش میں شیورون کی افرادی قوت میں ۹۵ فیصد سے زیادہ بنگلہ دیشی ہیں ۔ امریکی کمپنیاں اعلیٰ معیار اور ٹیکنالوجی بھی ساتھ لاتی ہیں۔ ہم پاکستانی رہنماؤں سے اکثر کارگو اور کورٹیوا جیسی امریکی کمپنیوں کی تعریف سنتے ہیں جو کلیدی ٹیکنالوجی فراہم کر کے پاکستان کے وسیع زرعی شعبہ میں پیداواری صلاحیتوں کے حصول میں اضافہ کر رہی ہیں۔

امریکی کارپوریٹ سوشل ماڈلزبھی غیر معمولی ذرائع ہیں جواِن غیر ملکی سرمایہ کاری سرگرمیوں سے وابستہ افراد کے لیے روزگار اور مواقع پیدا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ، امریکہ۔پاکستان کونسل برائے خواتین امریکی اور نجی شعبہ ، پاکستانی نجی شعبہ کے مابین ، خواتین اور لڑکیوں کی سرپرستی کے لیے تعاون کو فروغ دیتی ہے۔ ایک مشہور امریکی برانڈ ” کے ایف سی” قوت سماعت سے محروم اور دیگر پسماندہ نوجوانوں کی ، پورے پاکستان میں اسکولوں کے ساتھ شراکت کر کے تعلیم میں مدد کرتا ہے ۔ پراکٹر اینڈ گیمبل کے چلڈرن سیف ڈرنک واٹر پروگرام نے ضرورت مند پاکستانی آبادیوں کو ۸۷۵ ملین لیٹر پینے کا پانی فراہم کیا ہے۔ اور یہی نجی شعبہ سے چلنے والے کاروباری ماڈل کی وہ نوعیت ہے جس کی ہمارے خیال میں پاکستان کو حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
جولائی میں وزیر اعظم عمران خان کے دؤرہ امریکہ کے موقع پر، صدر ٹرمپ امریکہ۔پاکستان تجارتی اور سرمایہ کاری تعلقات میں اضافہ اور توسیع کے لیے پُرجوش تھے۔ اور دونوں حکومتیں اس پر عملی طور پر کام کرنے کے لیے راہیں تلاش کر رہی ہیں۔ ہم ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ تجارت کی آسانی کے اشاریہ ۲۰۲۰ ء پر ۲۸ درجات ترقی اور دنیا بھر میں اصلاحات کرنے والے دس سرِ فہرست ممالک میں شامل ہونے پر پاکستان کو سراہتے ہیں۔ ورلڈ بینک رپورٹ نے پاکستان کی پُرجوش اصلاحی حکمت عملی کو بھی اجاگر کیا ہے۔
امریکی محکمہ تجارت نے آئندہ سال پندرہ تجارتی وفود کے تبادلہ کے ساتھ ہی پاکستان میں اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور ایک مرتبہ اگر ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن یا ڈی ایف سی اُٹھ گیا تو پاکستان حیرت انگیز دلچسپی کا مرکز بن سکتا ہے۔ ڈی ایف سی کے تحت سرمایہ کاری کی بالائی حد اوپیک سے دُگنی ، ۲۹ ِ اَرب سے ساٹھ ارب ڈالر ہوجائے گی، جس کے نتیجہ میں منصوبوں میں اعلیٰ معیار اور طویل مدت تک مالی استحکام یقینی ہو جائے گا۔ کیونکہ یاد رکھیں کہ ، کمیونسٹ چین کے برعکس امریکہ کبھی امریکی تجارتی اداروں کو یہ ہدایت نہیں دیتا کہ ان کو کام کے لیے کہاں جانا چاہیے۔ وہ جہاں بھی باہمی فائدہ اور بہترین مواقع دیکھیں تو چلے جاتے ہیں اور اس طریقہ سے مستحکم ترقی کوئی سرپٹ دوڑ نہیں بلکہ طویل عرصہ تک چلنے والی لمبی دوڑ بن جاتی ہے۔ اس کے لیے مؤثر نظم و نسق کے ڈھانچہ، سخت نفاذ قانون، مالیاتی خوشحالی اور تجارت کے لیے موزوں ماحول کی تیاری درکار ہوتی ہے۔
میں اس ضمن میں کچھ زیر تکمیل تجارتی تعلقات کو اجاگر کرنا چاہوں گی جوآپ کو عندیہ دےسکےکہ ہماری سوچ کیا ہے۔ امریکی فرم ایکسلریٹ پاکستان کے پہلے ایل این جی ٹرمینل میں تیرتے ہوئے اسٹوریج میں ری گیسی فکیشن یونٹ کی اپ گریڈیشن کے لیے ۳۰۰ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ ایکسن موبل پاکستان کی ایل این جی ترسیل تک رسائی کی سرکردہ کوششوں کی مدد کے لیے کام کر رہی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں کے دوران، پیپسی کو نے اپنی تنصیبات اور مصنوعات کو متنوع بنانے کی مَد میں ۸۰۰ ملین ڈالرسرمایہ کاری کی اور کوکاکولا نے پانچ سو ملین ڈالر سرمایہ کاری گزشتہ چند سالوں میں کی اور ہزاروں پاکستانیوں کو ملازمتیں فراہم کیں۔ اوبر ٹیکنالاجیز ۲۰۱۶ ء میں پاکستانی مارکیٹ میں داخل ہوئی اور اس وقت نو مختلف شہروں میں کام کرتے ہوئے ہزاروں پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع مہیا کر رہی ہے۔ مزید برآں، ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت نے اصلاحات ، مقامی افراد کی بااختیاری اور خود انحصاری اور خوشحالی کے حُصول کے لیے پاکستان کے ساتھ اشتراک کیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں کوئی ابہام نہ ہو کہ یہ امریکہ پاکستان ترقیاتی شراکت نے بنیادی طور پر گرانٹس کی شکل اختیار کی ہے نہ کہ قرضہ کی۔
مذکورہ ترقیاتی امداد کے مثبت اثرات کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ہم نے پاکستان کے بجلی نظام میں ۳۵۰۰ میگا واٹ کا اضافہ کیا، جس کا چار کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کو فائدہ اور ساتھ ساتھ پاکستان کے توانائی شعبہ میں ایک اعشاریہ سات ارب مالیت کی نجی سرمایہ کاری کو تحریک دی، اور اس کے ساتھ پاکستان کے پہلے ایل این جی ٹرمینل کی مالی معاونت بھی کی۔ ہم نے ۴۵۰۰۰ سے زیادہ اساتذہ اور اسکول منتظموں کو تربیت فراہم کی جس کا مطلب سرکاری اسکولوں کے اٹھارہ لاکھ بچوں تک رسائی تھی۔ ہم نے پاکستانیوں کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ۱۹۰۰۰ وظائف دیے ہیں۔ ہم نے سالانہ ۸۰۰ پاکستانیوں کی امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ دیئے ہیں، بشمول دنیا کے سب سے بڑے فل برائیٹ پروگرام اور ۲۹۰۰۰ سے زیادہ الومنائی کے نیٹ ورک کے۔ ہم نے ۹۱۰۰۰ قانون نافذ کرنے والے حکام کو سنہ ۲۰۱۰ ء سے تربیت اور گاڑیاں، مواصلاتی نظام اور حفاظتی سازوسامان فراہم کیاہے۔ ہم نے ایک کروڑکے قریب خواتین اور بچوں کو حفظان صحت کی سہولتیں اور ۱۸۰۰ کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں ، ۲۵۰۰ صحت عامہ ، تعلیم اور دیگر سہولیات اور ۱۱۰۰ چھوٹے آبی اور توانائی منصوبے مکمل کیے جن سے دیہی آبادی کے دس لاکھ سے زیادہ گھرانوں کو فائدہ پہنچا۔
گزشتہ دہائیوں سے، ہم اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کے سب سے ممتاز تعلیمی ادارے اور مراکز کے قیام میں مدد کی ہے جن میں لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز، انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن، جناح پوسٹ گریجوئیٹ میڈیکل سینٹر اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں سینٹر فار ایڈوانسڈ انرجی اسٹڈیزشامل ہیں ۔
اور آخر میں، امریکی محکمہ تجارت اور امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی نے پاکستان میں کاروباری ماحول کی بہتری کے لیے کلیدی فنی امداد فراہم کی ہے۔ حقوق دانش کے تحفظ سے لیکر الیکٹرانک نظام کو منظم کرکے سرحد پار تجارت میں آسانی پیدا کرنے تک۔
آخرمیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مستحکم ترقی اور نشوونما کا سفر آسان نہیں ہے۔ سرمایہ حاصل کرنا بہت کٹھن عمل ہو سکتا ہے اور اس میں تکلیف دہ مگر ضروری اصلاحات شامل ہوسکتی ہیں۔ اور یہی وہ صورتحال ہے جہاں پر او بی او آر پرسنگین خدشات جنم لیتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستانی بیجنگ سے سخت سوالات پوچھیں گے اور احتساب، معلومات تک رسائی اور شفافیت پر زور دیں گے۔ چین کی حکومت سے پوچھیں کہ وہ پاکستان میں ایسا ترقیاتی منصوبہ کیوں اختیار کیئے ہوئے ہے جو اس اصول سے ہٹ کرہے جس کو اختیار کر کےچین نے خود معاشی ترقی حاصل کی۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کے برعکس، امریکہ ہند بحرالکاہل خطہ کے لیے جو نظریہ رکھتا ہے وہ آزاد اور کُھلا ہے۔ یہ ایسی قوموں پر مشتمل ہے جو آزاد، مضبوط اور خوشحال ہیں ۔ اور جیسا کہ نائب صدر پینس نے کہا تھا کہ ہند بحرالکاہل خطہ میں ہمارے تعلقات قبضہ گیری پر نہیں بلکہ احترام کی رو ح سے سرشار اوراشتراک پر مبنی ہیں ۔
سات سے زیادہ دہائیوں تک، امریکی معاشی اور تجارتی شراکت، دفاعی تعاون اور ترقیاتی اقدامات نے آزادی، شفافیت اور اقتصادی خوشحالی کو خطہ بھر میں فروغ، پاکستان جیسی قوموں کو اپنی استعداد میں اضافہ کے لائق بنایا ہے۔
آپ کا بہت شکریہ۔
میزبان: بہت شکریہ۔ میں نے آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے اور میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہوں گا ؟
سفیر ویلز: میرے پاس کوئی راہ فرار موجود ہی نہیں ؟
میزبان: خیر، آپ کے پاس ہے۔ وہ پیچھے کی جانب ایک دروازوہ موجود ہے۔
جیسا کہ آپ نے جادوئی الفاظ ادا کیے، پیرس کلب۔ چونکہ میں پیرس کلب میں طویل مدت تک نمائندہ تھا، در اصل، دو مختلف ملازمتوں کے دوران، تو اس حوالہ نےمجھے مسئلہ کی گہرائی تک چوکنا کردیا۔
لیکن میرا سوال ہے کہ یہ ایسا کیوں ہے ۔ میرے پاس کافی سوالات ہیں لیکن مجھے اس سوال سے آغاز کرنے دیں جو کل میرے پاس آیا۔ میں دوسرے اجلاس میں تھا، جو اتنا بڑا اجلاس نہیں تھا۔ وہاں پر ایک اچھی شہرت کا حامل پاکستانی تھا جو پاکستان میں تبدیلیوں کے بارے میں گفتگو کر رہا تھا اور یہ کہ پاکستان کیسے اچھا ہو چکا ہے۔ اور میں نے اس سے سی پیک کے بارے میں پوچھا۔ اس نے شروعات ہی میں کہا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے ہونے والا سب سے اچھا عمل ہے۔ یہ براہ راست ان کے الفاظ ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ ۔
دوسری بات وہ اس سے آگے بات کر رہا تھا کہ جیسا پاکستان کی معیشت آگے دوڑ رہی ہو، او ر اس نے سی پیک اس کا سبب ہونے کا ذکر نہیں کیا بلکہ تاثر یہ مل رہا تھا کہ حالات بہت بہت ہی بہتر ہیں۔
مثال طور، اس نے کہا کہ بہت ہی لمبے عرصہ کے بعد ان کے پاس اضافی توانائی ہے۔ اس نے کہاں کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بھیڑ ہے ۔ضروری نہیں کہ ان کا تعلق امریکہ سے ہوبلکہ ایشیا بحرالکاہل کے علاقوں سے۔
تو مجھے حیرانی ہوئی ، خیر، اگر یہ سچ ہے، تو کیا وہ تعلقات استوار ہو رہے ہیں جو معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ہونے چاہییں؟ کیونکہ جیسا کہ آپ نے ذکر کیا، قرضوں کی صورتحال سنگین ہوسکتی ہے، اور ادائیگی کے قابل ہونے کے لیے، اس کو جاری رکھتے ہوئے، ان کو گزشتہ دہائی میں کی گئی ترقی کے مقابلہ میں بہت تیزی سے معاشی نشوونما کرنی ہوگی، اور میرے خیال میں انہوں نے مستقبل میں نشو ونما کے لیے منصوبہ بندی کر لی ہے، خاص طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام کے زیر سایہ۔
تو آپ کیوں سمجھتی ہیں کہ ، اور میں یہ ہر جگہ پاکستانیوں سے سنتا ہوں، سی پیک ہی سب کچھ ہے اور نصب العین ہے، اور ان کو وہ نقائص نظر نہیں آتےجن کی نشاندہی آپ نے کی، حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ میں آپ سے مکمل طورپرمتفق ہوں۔
سفیر ویلز: میرے خیال میں سی پیک کو قرضہ ظاہر کرنے کے، اور قرضہ بھی رعایتی نرخوں پر نہیں ، کے بجائے گرانٹ اور امداد سے خلط ملط کرنے کارحجان ہے ، یہ ہی بات ہے۔ اس لیے آپ جیسے ہی منصوبوں کا انفرادی جائزہ لیں گے، میں پاکستان کی بنیادی ڈھانچہ کی ضروریات پراعتراض نہیں کر رہی۔ بنیادی ڈھانچہ کی ترقی کی شدید ضرورت تھی اوررہے گی۔ اور جب ۲۰۱۵ ء میں سی پیک پر مذاکرات ہوئے تو حکومت کو سنگین توانائی بحران کا سامنا تھا اور توانائی وسائل پیدا کرنے کو ترجیح پر رکھا گیا۔
لیکن میں سمجھتی ہوں کہ سی پیک اس بات کی مثال ہے کہ جب آپ سرمایہ کاری اور ترقی کو اچھے طور طریقوں اور ترقیاتی ڈھانچے سے منقطع کرتے ہیں توکیا ہوتا ہے ۔ کیونکہ اگر آپ کے پاس درست حکمت عملی نظام نہیں ، اگر آپ نے مطلوبہ اصلاحات نہیں کیں تو بعض ترقیاتی فیصلوں کے مضمرات ہوتے ہیں۔ توانائی، کوئلہ، بجلی پیداواری پلانٹ بنائے جا سکتے ہیں تاہم اگر ساتھ ساتھ نظام تقسیم توانائی میں بہتری نہیں کی تو آپ ایسا نظام تیار کر رہے ہیں جو بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور حکومت ابھی تک اس توانائی کی قیمت دینے کی پابندہے جو صارفین تک پہنچ ہی نہیں رہی۔
لہٰذا یہ ترقی کا ایک لاینحل مسئلہ ہے۔ آپ کو تمام اجزاء درست مقام پر رکھنا ہوتے ہیں۔ جلدبازی میں مکمل کیے گئے انفرادی منصوبے اور کوئی ایسا منصوبے ،جو بنیادی ڈھانچہ سے منسلک نہ ہو اور نظام سے باہر ہو، ایسے اقدامات کامیاب نہیں ہوسکتے۔
میرا اندازہ ہے کہ میں اس طرف اشارہ کروں گی کہ پاکستان اب آئی ایم ایف پروگرام میں ہے۔ وسیع اور اصلاحات کےمقصد سے تیار کردہ آئی ایم ایف پروگرام جو کہ مالی ذخائر اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کی وجہ سے وجود میں آیا ۔
اور بعض جگہوں پر آپ کو سی پیک کی دُگنی نحوست نظر آئے گی۔ مثال کے طور پر ، جب پورٹ قاسم بجلی گھر بن رہا تھا تو ، میں نے رپورٹ میں پڑھا کہ اُس کے ۹۹ فیصد آلات چین سے آئے تھے۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے ان منصوبوں کے لئے تمام آلات درآمد کیے ہیں جبکہ منافع واپس چینی صنعتی تنظیموں کو جانے کے سلسلہ کا بھی خطرناک اثر پڑا۔ چنانچہ چین کوبرآمدات میں صرف ایک اعشاریہ آٹھ ارب اور چین سے ۱۴+ سے زیادہ درآمدات کے اعدادوشمار سی پیک کی بھاری قیمت کا پول کھول دیتے ہیں۔
میرے خیال میں – ہم چاہتے ہیں کہ چین بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کا ذمہ دار مالی معاون اور حامی ہو ۔ صرف ہند بحرالکاہل خطہ میں سال ۲۰۳۰ ء تک ۲۷ کھرب کی سرمایہ کاری انفراسٹرکچر شعبہ میں درکار ہوگی۔کوئی ایک ملک ایسا نہیں کرسکتا۔ ہم سب کو یہ یقینی بنانے کے لیے کوششیں کرنی چاہیئں کہ ملکوں کے پاس دیرپا اور معیاری بنیادی ڈھانچہ کی تیاری کے لیے با معنی ذرائع ہونے چاہییں۔
اور میرے خیال میں ہم سب کو یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے اور ہم سب کو زور دینے کی بھی ضرورت ہے کہ چین بین الاقوامی معیار کو کیوں نہیں اپنا رہا ؟
اب دوسرا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ، آپ نے صدر ژی کو دیکھا کہ انہوں نے کچھ دباؤ کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انہوں نے کام کے معیار اور معیار ی اصولوں کی کمی کے بارے میں تنقید کے بارے میں غور کیا ہے ،لیکن ہم نے ابھی تک معیاری میں اضافہ، ماحول دوست بیلٹ اور روڈ کے بارے میں چینیوں کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد ہوتے نہیں دیکھا۔ چند موٹی موٹی سی باتیں ہیں جن کا میں تذکرہ کروں گی۔
پیرس کلب کے معیارات کا اطلاق کیوں نہیں کیا جائے؟ کیوں نہ آپ اپنے رعایتی قرضوں میں اضافہ کریں اور کم ترقی یافتہ ملکوں کے لیے اپنی ترقیاتی امداد میں گرانٹس بھی شامل کریں؟ جی ٹوئنٹی کا تو چین خود بھی رکن ہے تو اس کے تعمیراتی ڈھانچے کے اصولوں کی پابندی کیوں نہیں کی گئی؟ کیوں نہ شفافیت کو فروغ دیا جائے؟ آپ اپنے دیے ہوئے سرکاری قرضوں کے بارے میں باقی ملکوں کو مطلع کریں۔
ابھی تو نہ آئی ایم ایف اور نہ ہی کوئی دوسری کثیرالجہتی تنظیم ان مقروض ممالک پر قرضوں کے بوجھ کے بارے میں مکمل طور پر جانتی ہے جو کہ ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں میں شریک ہیں ، یہ صورتحال خود ایک خطرہ کو جنم دے سکتی ہے جس کے باعث بڑی ضرب لگ سکتی ہے۔
لہذا ایک سادہ سی درخواست ہے کہ ایک اچھے بین الاقوامی شہری بن جائیں۔ ایماندار بنیں۔ وہ اعلیٰ پائے کے اقدار اپنائیں جن کو بطور جی ٹوئنٹی ممالک کی تنظیم کے رکن فروغ دینا چاہیے۔
میزبان: زبردست۔ میں اب کچھ لمحوں کے لیے سامعین کی جانب جا رہا ہوں لیکن اگر آپ برانہ مانیں تو میں ایک دو سوال مکمل کرلوں؟
دوسرا سوال جو میں نے آپ کی گفتگو سے اٹھایا ہے ، میرا مطلب ہے کہ میرے خیال میں چین کو اپنی عادتیں تبدیل کرنے کے لیے دی جانے والی ترغیبات ابھی بہت کم ہیں ، لیکن شاید وہ بہتر ہوجائیں گے۔ کیا یہ زیادہ مددگار نہیں ہوگا کہ ایسا کیوں ہے کہ پاکستان اور دوسرے ملک بغیر تحقیقات کے ان چینی سرمایہ کاری اقدامات کا خیر مقدم کیوں کرتے ہیں ؟
دوسرا حصہ یہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ جیسے امریکی سرمایہ کار اور دیگر مغربی سرمایہ کار اور ایشیابحرالکاہل خطہ کے دوسرے سرمایہ کار اس معاملہ میں پاکستان اور دیگر جگہوں پر امکانات کھو رہے ہیں۔لیکن کیا اس کا سبب پاکستان کی بطور خطرناک ملک ساکھ ہوسکتی ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضوں کے کتنے پروگراموں میں سے گزرتے رہے ہیں؟ کم از کم ایک درجن ، اور ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا ۔ آپ کے خیال میں کون سے حقائق مغرب کو وہاں پر نقل و حرکت سے روکے رکھے ہوئے ہیں۔
سفیر ویلز: ہم اپنے نجی شعبہ کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں ۔ اگر آپ ان کمپنیوں پر نظر ڈالیں جو پہلے ہی پاکستان میں سرگرمعمل ہیں ، تو وہ ہماری سب سے بڑی اور معروف ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے ہیں جن کو خطرات سے نمٹنے کا کافی تجربہ ہے اور وہ پاکستانی مارکیٹ کے حالات اور غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
لیکن اضافی نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے مشکل اصلاحات کرنی پڑتی ہیں ، جو قوانین کی تشکیل، معاہدوں کی پاسداری ، تنازعات کے تصفیہ اور کرنسی کا استحکام یقینی بنانے کے لیے درکار ہیں۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اس خدشے کا رجحان پایا جاتا ہے کہ خصوصی اقتصادی زون سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں مشکلات کا حل بن سکتے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے پاس اس کا تجربہ ہے۔ ہمارا تجربہ یہ واضع کرنا ہے کہ شفاف کاروبار اور مستحکم کاروبار کرنے کا فریم ورک دستیاب ہے۔
مغربی ماڈل کے ساتھ کام کرنا بعض اوقات مشکل ہوتا ہے۔ میں بطور امریکی سفیر کسی سرکاری کمپنی میں سرمائے کا تھیلا لیکر نہیں جا سکتی جبکہ دوسرے ممالک یہ بھی کرسکتے ہیں۔
لہٰذا میرے خیال میں امریکہ اور ہم خیال اتحادیوں پر لازم ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کریں کہ ترقی کے خواہاں ممالک کے پاس اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بامقصد متبادل دستیاب ہوں۔ مثال کے طور پر آپ نے دیکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے زیر نگرانی انڈو -پیسیفک حکمت عملی وضع کی گئی ہے جہاں ہمارے پاس نظم و نسق چلانے کی جگہ موجو دہے اور معاشی فروغ کے امکانات بھی ۔ خاص طور پر ہم توانائی مارکیٹوں، ڈیجیٹل رابطہ کاری اوربنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں پر ہم مختلف ملکوں کو زیادہ وسائل و منصوبے اور تکنیکی مدد فراہم کر رہے ہیں اور ہم بھارت ، آسٹریلیا اور جاپان جیسے ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جن کے اصولہم سے مشترک ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو اس حکمت عملی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا فرق نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔

مثال کے طور پر مجھے فخر ہے کہ ہم ملینیم چیلنج کارپوریشن پروگرام کے تحت نیپال میں پانچ سوملین ڈالر سے زیادہ کی گرانٹ کے ذریعہ سےبہتر سڑکیں اور آبی وسائل سے بجلی پیدا کرنے میں مدد کر رہے ہیں جو نیپا ل اور بھارت کے مابین موجود ایک ٹرانسمیشن لائن میں پہنچائی جائے گی۔ اس لیے علاقائی روابط میں اضافہ، برآمدی منڈیوں کا قیام اور اس نوعیت کے دیگر کام دانشمندانہ ترقی کا عمل ہیں۔

ہم سری لنکا میں جلد ایک اور ایم ایم سی کا افتتاح کررہے ہیں جو زمین کے اندراج اور موٹر وے کے نظم و نسق سے متعلق اسی طرح کی اہم اصلاحات کرے گی، جن سے ہمارے خیال میں معاشی ترقی کو جلا ملے گی۔

ہمیں اپنا کام کرنا ہے، جو ہمارے نجی شعبے کے ساتھ قریبی شراکت پر مبنی ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ انڈو پیسیفک خطے میں امریکہ کی ایک کھرب ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اور ڈیڑھ ارب ڈالر کی دوطرفہ تجارت ہے۔ لہٰذا اس خطے میں ہم ایک اہم طاقت ہیں۔

میزبان : ایک ارب ڈالر بھی بڑی رقم ہے، چنانچہ یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ ایک کھرب ڈالر کی رقم ہے۔ایک اور سوال اور پھر ہم یہاں موجود لوگوں کی طرف جائیں گے۔

یہ سوال اس بارے میں ہے، جیسا کہ آپ نے جنوبی ایشیا کے خطے کے بارے میں کافی اظہار خیال کیا ہے۔ میں نے گذشتہ روز نیپال سے متعلق ایک اور اجلاس میں شرکت کی جہاں پتہ چلا کہ نیپال ایک وفاقی نظام رائج کرنے کی کوشش کررہا ہے اور چین وہاں حکومت کے دیگر حصوں پر زیادہ توجہ مرکوز کئے بغیر وفاق میں رقم خرچ کررہا ہے۔ میں بنگلہ دیش میں دیکھتا ہوں کہ چین کو وہاں سرمایہ کاری کے حوالے سے شہرت حاصل ہے اور وہاں میرے خیال سے چینکو بندرگاہیں استعمال کرنے کی پیش کش کی گئی ہے۔ میں یہی صورتحال سری لنکا اور دیگر جگہوں پر دیکھتا ہوں۔ یہ معاشی سفارتکاری ہے اور بنیادی طور پر آپ اسی بارے میں بات کر رہی ہیں۔

مثال کے طور پر نیپال کو لے لیجئے، جہاں ہوسکتا ہے کہ وفاقی نظام کام نہ کرے۔ ممکن ہے انہیں ایک مرکزی نظام کی طرف جانے کے لئے رشوت دی جائےجو میرے خیال میں چین پسند کرے گا۔ کون جانتا ہے کہ پاکستان یا بنگلہ دیش میں کیا ہوگا۔ بنگلہ دیش پہلے ہی کافی مطلق العنان ہے۔
بہر صورت یہ میری سوچ ہے۔ آپ کی نہیں۔

کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اس بارے میں میری یہ تشویش کوئی حقیقی معنی رکھتی ہے؟ کیا اس بارے میں فکرمندی والی کوئی بات ہے؟

سفیر ویلز :چین یقیناً دنیا بھر میں بہت فعال ملک ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ چین کا ایک عالمی منصوبہ ہے، انڈو پیسیفک خطے میں چین کی زبردست موجودگی ہے اور اس کے وہاں بنیادی ڈھانچے سے متعلق منصوبے ہیں، لیکن بنگلہ دیش جیسے ملک میں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم وہاں انفرادی طور پر سب سے بڑے براہ راست سرمایہ کار ہیں۔ ہم بنگلہ دیش کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہیں۔ بنگلہ دیش میں نمایاں امریکی سرمایہ کاری ہے۔ خواہ وہ شیوران ہو یا کوئی اور،امریکی کمپنیاں بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کو وسعت دینے میں بہت دلچسپی رکھتی ہیں۔ ہم ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن کے نئے ذرائع استعمال کرتے ہوئے ایسا کرسکتے ہیں جو اوپک کے تحت دستیاب وسائل سے نمایاں طور پر زیادہ لچکدار ہیں۔ اس سے ہمیں دیگر ترقیاتی شراکتداروں کے ساتھ ملکر کام کرتے ہوئے ایکویٹی سرمایہ کاری کا موقع میسر آتا ہے۔

ہم فعال انداز میں اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ہم جاپان، آسٹریلیا اور بھارت ساتھ ملکر کس طرح مزید قریبی اشتراک کرسکتے ہیں جو یقینی طور پر بنگلہ دیش میں فعال سرمایہ کار ہیں۔

بعض اوقات اس صورتحال کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ یہ غیر مفید مسابقت ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ستائیس ٹریلین ڈالر کی انفراسٹرکچر ضروریات کوئی ایک ملک پوری نہیں کرسکتا، چنانچہ سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح اس بات کو یقینی بناسکتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کو انفراسٹرکچر کے لئے ایسی سرمایہ کاری تک رسائی میسر ہو جو ان کی خوشحالی میں اضافہ کرسکے۔

عالمی بھلائی ، جس کے لئے امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے کوشاں ہے، ایک ایسا معاشی نظام ہے جو حقیقی معنوں میں سب کے لئے ترقی کا باعث ہو۔ ہمارا حصہ ایسے نظام کی پائیداری میں ہے۔ یہ نجی شعبے کے لئے بہت اچھا رہا ۔ ہماری کمپنیوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم امریکہ میں برآمدات کے ذریعے ملازمتوں کی فراہمی کی بدولت معاشی طور پر بہت مستفید ہوئے ہیں اور ہمیں اپنی ان اقدار پر فخر ہے جو نجی شعبے پر مبنی معاشی ترقی کے ماڈل کو جلا بخشتی ہیں، یعنی آزاد،کھلی اور خودمختار۔

میزبان: آپ نے بہت اچھی بات کی۔

میرا خیال ہے کہ اب ہم سامعین کی طرف جائیں گے۔ کیا آپ میں سے کسی کے پاس سوالات ہیں؟

سوال: آپ کا بہت شکریہ۔ میرا نام (عارفہ خالد) ہے۔ میں دس سال تکپاکستانی پارلیمنٹ کی رکن رہی ہوں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ میں آپ کے تصورات و خیالات کو سراہتی ہوں۔ آپ نے جس طرح دیانتداری اور صاف الفاظ میں ہر چیز پیش کی میں اسے سراہتی ہوں۔
ہمیں بھی یہی تحفظات درپیش ہیں جن کا تذکرہ آپ نے کیا۔ لیکن میری تشویش یہ ہے، میرا سوال سادہ سا ہے۔ کہ جیسے میں نے بجلی کا مسئلہ خود دیکھا ہے۔ میں نے توانائی کا بحران، گیس کا بحران دیکھا ہے اور میں خود اس صورتحال میں رہی ہوں جب ہمیں بارہ گھنٹے سے زیادہ وقت بجلی کے بغیر گزارنا پڑتا تھا اور گرمی کے موسم میں اس صورتحال کا سامنا کرنا آسان بات نہیں۔
تو آپ مجھے ایک ایسا ملک بتائیں جہاں پر بہت سے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ تو آپ کا کیا خیال ہے ، میرا مطلب ہے کہ وہ کیا کریں گے اگر یہ تاثر پیدا ہوجائے کہ ارے یہ تو سفر کرنے اور کام کرنے کے لحاظ سے برا ملک ہے اور وہ چین کی جانب راغب ہوجائے اور وہ ان کو جو کچھ ہے وہ پیش کردے، تو ان کے پاس بہت سے سوالات ہیں۔
یہی میرا سوال ہے کہ امریکہ سی پیک میں شرکت کیوں نہیں کر رہا؟ وہ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں اور اگلے مرحلے میں مختلف کمپنیوں کے ساتھ ملکر کام کر سکتے ہیں ، میرے خیال میں پاکستان اس کو خوش آمدید کہے گا۔ یہ میرا سوال تھا، آپ کا شکریہ !
سفیر ویلز: شکریہ
میں آپ سے اتفاق کرتی ہوں، ممالک بنیادی ڈھانچے کی تعمیر چاہتے ہیں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ان کی ہنگامی ضروریات میں شامل ہوتی ہے جیسا کہ آپ نے یقینی طور پر پاکستان کی توانائی کی ضروریات کے معاملے میں دیکھا ہے۔ اسی لیے امریکہ نے پاکستان میں بتیس سو میگا واٹ بجلی کی پیداوار میں معاونت فراہم کی ہے جو پاکستان کے قومی گرڈ میں شامل ہو چکی ہے۔ مگر بعض دفعہ عجلت میں حاصل کیے گئے نتائج دور رس اور عقلمندانہ ثابت نہیں ہو سکتے۔تقسیم کار گرڈ، قیمتوں اور رعایتی نرخوں کے تعین کے مسائل کا حل کیے بغیر توانائی کی پیداور میں اضافہ اور توانائی کے پلانٹس کی تعمیرنے پاکستان میں گردشی قرضوں کے مسائل کو جنم دیا ہے جو موجودہ آئی ایم ایف پروگرام میں خاص توجہ کا حامل ہے۔ اس لیے ہم اس بات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ ایک درست پالیسی کا ماحول قائم کیا جائے اور ایک جائز قانونی فریم ورک متعارف کروایا جائے۔ اور اس طریقے سے آپ بہت سے سرمایہ کاروں کو راغب کر سکیں گے جو پاکستان آنا چاہتے ہیں۔
چاہے وہ ایکسن موبلز ہوں یا ایکسلریٹ اور دوسری کمپنیاں ہوں ، جو پاکستان میں کام کی ایک تاریخ رکھتی ہیں ، جنوبی ایشیا میں توانائی کے شعبے میں کافی دلچسپی پائی جاتی ہے۔
لہٰذا آپ یہ گمان مت رکھیں کہ نجی شعبہ وہاں آنا نہیں چاہتا مگر وہ دور رس اصلاحات اور اس کی یقین دہانی بھی چاہتا ہے۔
میرے خیال میں جنرل الیکٹرک ایک ایسی کمپنی ہے جس نے سی پیک میں کافی کامیاب شراکت داری کی ہےاور اس کی ایک وجہ اس کمپنی کے وہ ٹربائن ہیں جس کے خاطر خواہ کاروباری حریف نہیں تھے۔ اور انہوں نے چینی شراکت داروں کے ساتھ ملکر ان منصوبوں پر کام کیا ہے جو بین الاقوامی معیار پر پورا اترے تھے ، شفاف تھے اور ان اصولوں کی پابندی کرتے تھے جن کو جنرل الیکٹرک اور امریکی کمپنیاں مد نظر رکھتی ہیں۔ اور میں ہمیشہ اس کا ذکر کرتی ہوں کہ نیپال میں امریکہ ۔چین شراکت سے ایک سرنگ کی کھدائی کامنصوبہ ہے۔ ہم چینی کمپنیوں کے ساتھ شفاف منصوبوں پر مکمل شفافیت کے ساتھ اور مسابقتی اصولو ں کے کار بند منصوبوں پر کام کرنے کو مکمل طور پر تیار ہیں ۔ یہ اصولو ں سے متعلق ایک سوال ہے۔
میرے خیال میں ایک اور بات یا سوال جو میں آپکے سامنے رکھنا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ چین کے ترقیاتی منصوبوں میں سے ایک قلیل رقم ہی کیوں ایشیائی انفراسٹرکچر اور انویسٹمنٹ بینک کے ذریعے جا تی ہے، جو بنیادی طور پر ایشیائی ترقیاتی بینک کے ذریعے عمل میں لائی جاتی ہے ، یعنی کہ مختلف الجہت معیار۔ اور اتنی زیادہ رقم ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت ہی کیوں دی جارہی ہے؟ میرے نزدیک یہ بہت واضح ہے۔ ایک سائیڈ مشکل اصولوں پر کار بند ہے جبکہ دوسری طرف مقامی اصولوں پر انحصار کیا جا رہے ہے۔
ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمام بڑے انفراسٹرکچر ڈیولپرز اس بات کو یقینی بنائیں کہ دنیااس طریقے سے ترقی کی منازل طے کرے کہ تمام شہری اس کے فوائد سے مستفید ہو سکیں نہ کہ اس طرح کا ماحول یا پھر سفید ہاتھی منصوبے جو بعض ممالک میں بہت غیر مقبول ہوئے ہیں ۔
سوال : میرا نام ول ایمبری ہے اور میرا تعلق ڈائن کارپ انٹرنیشنل سے ہے۔
ایلس ، سی پیک اور بیلٹ اور روڈ منصوبہ افغانستان کے خطے کے ساتھ معاشی تعلقات کے اضافے پر کس طرح سے اثر انداز ہو گا؟
سفیر ویلز: چین کا افغانستان کی ترقی میں اب تک خاص کردار نہیں رہا۔ چین وہاں پر قابل ذکر مالی امداد بھی فراہم نہیں کر رہا۔ چین نے ایک تانبے کی کان میں سرمایہ کاری کا دعوی کیا ہے جو ایک بہت بڑی کان ہے مگر ابھی تک اس نے اس کان کو ڈی ویلپ نہیں کیا ہے۔ میرے خیال میں اس وقت امریکہ اور چین کے ما بین افغانستان کے مسئلے کے ایک پر امن سیاسی حل میں اشتراک کے اہم مواقع موجود ہیں اور سفیر خلیل زاد باقاعدگی سے اپنے چینی ہم منصبوں اور علاقائی کرداروں کے ساتھ مشاورت کرتے رہتے ہیں مگر میں نے ابھی تک چین کو افغانستان میں استحکام کی کوششوں میں خاطر خواہ اقدامات اٹھاتے نہیں دیکھا، چہ جائیکہ افغانستان کی وسطی ایشیا یا بین الاقوامی برادری میں شمولیت کا دعوی کیا جائے۔
علاقائی رابطوں کے زیادہ تر منصوبے ہمسایہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے جانب سے سامنے آئے ہیں ، چاہے وہ ترکمانستان ہو، یا ازبکستان اور تاجکستان جو تمام ریل لائنز، بجلی کی ترسیل اور سرحد پار تجارت کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ خصوصا گزشتہ دو سالوں میں ہم نے ازبکستان کے حوالے سے نہایت اہم پیشرفت دیکھی ہے۔
سوال: کیا چین ان منصوبوں میں معاونت کر رہا ہے جو ان ممالک کو افغانستان سے جوڑیں گے۔
سفیر ویلز: ایسا کچھ میرے علم میں نہیں ہے۔
سوال: میرا نام جون ڈینلوک ہے اور میں باور گروپ ایشیا کے ساتھ کام کرتا ہوں۔
اسی سے جڑا ہوا میرا ایک سوال ہے جس کا تعلق پاکستان میں آنے والی ایک دوسری غیرملکی سرمایہ کاری سے ہےجو خلیج فارس کے علاقے سے آرہی ہے۔ ایل این جی تعلقات فروغ پذیر پاک۔امریکہ اقتصادی تعلقات کیلئے اہم ہیں۔ تاہم ایکسیلریٹ کے سوا ایف ایس آر یو کے شعبے میں سرگرم امریکی فرمیں خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کی طویل المیعاد موجودگی میں ایل این جی کے شعبے میں بھرپور مسابقت نہیں کرسکتیں۔
امریکہ اپنی ایل این جی کمپنیوں کو پاکستان میں توانائی کے ایک بڑے ذریعے کے طور پر کس طرح متعارف کروا سکتا ہے جبکہ وہاں اس کے برخلاف اس مقصد کیلئے ایک درآمدی ڈھانچہ موجود ہے؟

سفیر ویلز: ہم امریکی کمپنیوں کی جانب سے وکالت کرنے اور منصفانہ مسابقت کیلئے درکار قانون پر مبنی ماحول اور حالات چاہتے ہیں۔ اس وقت بعض بڑی کمپنیاں پاکستان میں مواقع کی تلاش میں ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ چند سالوں سے خلیجی ممالک کا کردار بہت دلچسپ رہا ہے۔ جب پاکستان اپنے تازہ ترین معاشی بحران کی لپیٹ میں آیا تو ہم نے دیکھا کہ سعودی عرب اور قطر نے اسے سرمایہ فراہم کیا ، جس سے یہ حقیقت ایک بار پھر عیاں ہو گئی کہ پیسے سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ یہ مسئلہ ،خواہ توانائی کی قیمتیں مقرر کرنے کا ڈھانچہ ہو یا قواعد و ضوابط یازر کے انتظام ا نصرام اور مرکزی بینک کی خودمختاری کا ، صرف اصلاحات سے حل ہو گا۔ آپ جانتے ہیں کہ کہ یہ سب مشکل لیکن ناگزیر اصلاحات ہیں جو اس مسئلے کا حل پیش کرتی ہیں۔

میزبان: ہم نے یہ مباحثہ قدرے تاخیر سے شروع کیا تھا۔ کیا آپ کے پاس کچھ وقت ہے یا آپ کو جلد جانا ہے؟

سفیر ویلز: جی میرے پاس وقت ہے۔

میزبان: ٹھیک ہے۔ اب میں ایک ہی وقت میں متعدد سوالات پوچھنے جارہا ہوں۔

سوال: (کرم سجاد، ۹۲ نیوز پاکستان): سی پیک کے آغاز ہی سے امریکہ کی حیثیت اس منصوبے کے ایک مبصر کی سی رہی ہے۔ ایک پاکستانی سینیٹر کا کہنا تھا کہ پاکستان اس منصوبے کیلئے نہ صرف زمین بلکہ بحری راستہ بھی دے رہا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے یہ جو شور شرابہ اس وقت کیا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو خلیج اومان، بحیرہ عرب اور بحر ہند سے خطرہ درپیش ہے۔۔ امریکہ کو ڈر ہے کہ وہ اس خطے میں اپنی بالادستی کھو رہا ہے۔

سوال: میرا نام مائیکا کائلر ہے، میں ہڈسن انسٹیٹیوٹ میں زیرتربیت ہوں۔۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا وجہ ہےکہ چین اپنےبیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کیلئے ایک زیادہ ذمہ دارانہ نمونہ وضع کرنے سے گریزاں ہے؟ کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس سے کمیونسٹ پارٹی دستبردار ہونے کو تیار نہیں کیونکہ اس سے ان کے اپنے ملک کو فائدہ حاصل ہوتا ہے اور خطے کے دوسرے ملکوں کے حوالے سے انھیں کوئی تشویش نہیں۔ کون سی بات انھیں ایک زیادہ ذمہ دارانہ نمونہ وضع کرنے سے روکتی ہے؟

سوال: میرا نام [سلداری مرانتق] ہے۔ مجھے پاکستانی۔امریکی ہونے پر فخر ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیا آپ کے پاس میرے جیسے پاکستانی نژادامریکیوں کیلئے کوئی تجاویز ہیں کہ ہم اپنے خطے میں ہونے والے واقعات کے حوالے سے کچھ کرسکیں؟

سفیر ایلس ویلز: شکریہ۔ میں نہیں سمجھتی کہ امریکہ کسی قسم کا کوئی خطرہ محسوس کرتا ہے۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ فوجی تعاون کی طویل تاریخ پر فخر ہے۔ پاکستان کے ساتھ ہمارے روز افزوں تعمیری تعلقات ہیں۔ پاکستان نے سمندری قذاقی کیخلاف بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس کیلئے ہم نے خلیج میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کیا ، جس کے دوران بحرین میں پاکستان کا رابطہ افسر تعینات رہا جہاں امریکہ کا پانچواں بحری بیڑا موجود ہے۔ اور ہماری موجودہ انتظامیہ ہمسایہ ملکوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان کاوشوں میں مزید کردار ادا کریں خواہ وہ بحری قذاقی کےخاتمے کیلئے ہوں یا ایران کی جانب سے خلیج عرب میں جہاز رانی کو پیچیدہ بنانے کیلئے کئے جانے والے بد نیتی پر مبنی اقدامات ہوں۔

دراصل میں نہیں سمجھتی کہ یہ پاکستان کیلئے ایک ترغیب ہے بلکہ میں سمجھتی ہو کہ پاکستان کیلئے موقع ہے کہ وہ غیر ریاستی قسم کے دہشتگرد عناصر سے فاصلہ اختیا رکرے اور ان کی استعداد کو محدود کرے جس سے ہمارے تعلقات مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ گزشتہ موسم گرما میں وزیراعظم عمران خان کا امریکہ کا دورہ کتنا شاندار تھا اور صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کی ملاقات کس قدر گرم جوش اور تعمیری رہی۔

ایسی ہی ترغیبات کے ہوتے ہوئے چین اپنی سرگرمیوں میں زیادہ شفافیت کیوں نہیں لاتا۔ میں چینی امور کی ماہر تو نہیں ہوں بلکہ شاید مشرقی ایشیاپیسیفک سے تعلق رکھنے والے میرے دوست اس موضوع پر میرا بولنا پسند نہ کریں، لیکن یہ پروگرام ایک حد تک اضافی لیبر اور سرمایہ اور اضافی پیداواری سہولتیں برآمد کرنے کیلئے ہی ہو ،وضع کیا گیا تھا۔ اس طرح چین اپنے داخلی مسائل میں سے ایک کو حل کرنے کیلئے کوشاں تھا اور اس نے اپنا یہ داخلی مسئلہ دوسرے ملک کے مفاد کی قیمت پر حل کر لیا۔
چین کے ۹۵ سرکاری کاروباری ادارے بیلٹ اینڈ رود منصوبے کا حصہ ہیں اور یہ دوسرے ملکوں میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی تعمیر میں مصروف ہیں۔
میرا خیال ہے ان سب میں رابطہ بڑی حد تک مشکل ہے۔
لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔ حال ہی میں ہم نے بیلٹ اینڈ روڈ اجلاس کے دوسرے مرحلے میں بہت نعرے بازی سنی۔ اگر آپ سبز ٹیکنالوجی اور سبز ون بیلٹ ون روڈ کے نعرے پڑھیں تو یہ بہت مثبت معلوم ہوں گے۔ لیکن کیا ان پر عملدرآمد بھی ہو گا، یہ دیکھنے کیلئے انتظار کریں۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاں ہمیں سچائی نظر آئے گی۔ میں پھر سے وہی بات دہراؤں گی کہ اس کام میں شفافیت ہونی چاہیے۔

لہذا جب آپ پوچھتے ہیں کہ امریکی فرمیں اس منصوبے میں زیادہ متحرک کیوں نہیں ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی فرموں کا آدھا وقت اس بات کا سراغ لگانے میں گزر جاتا ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ کے کس منصوبے کی بولی کب لگے گی یا پھر بولی صرف چینی کمپنیوں تک ہی محدود رکھی گئی، یابولی دینے والوں کو منصوبے کے بارے میں شفاف انداز میں معلومات فراہم نہ کی گئیں۔

میں دوبارہ شفافیت کی طرف آتی ہوں۔ شفافیت کے حوالے سے سوال اٹھائیں۔ آئیں چین کی سرگرمیوں کو معمول سے ہم آہنگ کریں اور ترقی کی اس دوڑ میں انھیں اچھا عالمی شہری بنائیں۔ہم بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں کے بہت شکر گزار ہیں۔ خواہ یہ پاکستانی نژاد امریکی ہوں یا بھارتی نژادامریکی، میں آپ کی جانب سے تعلقات کیلئے توانائی مہیا کرنے اور دلچسپی لینے، کانگریس کے ساتھ مل کر انسانی بنیادوں پر تعلیمی منصوبوں اور عوامی سطح پر تعلقات استوار کرنے کیلئے وکالت کرنے سے مستفید ہوتی ہوں۔ یہ ایک تحفے سے کم نہیں۔

لہذا میں آپ سے یہی کہوں گی کہ اپنی یہ کاوشیں جاری رکھیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتے رہیں۔ ہمیں بتائیں کہ ہم آپ کے ان منصوبوں کیلئے کیا مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے ان لوگوں کی کاوشوں کو اجاگر کرنے اور ان کا حصہ بننے اور ان لوگوں کے ساتھ مل کر نے کے منتظر ہیں۔

سوال: سہ پہر بخیر۔ میرا نام جویریہ ترین ہے اور میرا تعلق بلوچستان سے ہے جہاں پر سی پیک بن رہا ہے اور میں وہاں پر خودمختار تھنک ٹینک بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ چلا رہی ہوں۔ ہم حکومت بلوچستان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں کیونکہ میں ٹاسک فورس کا حصہ بھی ہوں۔ میں فل برائیٹ اسکالر ہوں، سنہ ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۴ ء میں، مجھے ہرہبرٹ ہمفری فیلوشپ بھی ملی اور میں نے ایریزونا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ اور محکمہ خارجہ نے مجھے واپس آ کر الومنائی نیٹ ورک سے بات چیت اور موجودہ فیلوز سے ملاقات کا اعزاز بخشا۔
بلوچستان کے لوگ سی پیک کے منتظر ہیں۔ ان کے خیال میں یہ ایک گیم چینجر ہے۔ مگر بحیثیت ایک پاکستانی اور بلوچ ہمیں اس حوالے سے شہریوں کیلئے قانون سازی پر خدشات ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ یہ خلیجی ممالک کی طرح ہو۔چینی آرہے ہیں ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔
دوسری چیز جو میرے مشاہدہ میں آئی ہے، کیونکہ میں بحیثیت سول سوسائٹی کی نمائندگی کرتی ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے این جی اوز اور سول سوسائٹی کو خاطر خواہ مواقع نہیں ملے ۔ میں نے ورلڈ بینک کے صدر سے ملاقات میں بھی اس چیز کا مطالبہ کیا کہ ہمیں پاکستان میں ایسی اعانت کی ضرورت ہے تاکہ سول سوسائٹی کو بااختیار بنایا جا سکے۔کیونکہ یہ بہت ضروری ہے اور یہ ہمارا اہم مطالبہ ہے۔ شکریہ
سوال: شکریہ۔ جہانزیب علی اے آر وائی ٹی وی پاکستان۔پاکستان اس وقت دنیا بھر سے سرمایہ کاری حاصل کر نے کیلئے کوششیں کر رہا ہے ،خصوصی طور پر امریکہ سے۔ کیا اس حوالے سے امریکی سرمایہ کاروں کیلئے پاکستان آنے کے حوالے سے سفری ہدایات میں تبدیلی ہوئی ہے یا اب بھی پاکستان کا شمار خطرناک ملکوں میں ہوتا ہے؟
سوال: میرا نام ایلن ہے ، کانگریشنل ریسرچ سروس سے ہوں۔ ایمبسڈر ویلز، یہ بہت مدلل تقریر تھی مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ آپ کانگریس سے توثیق شدہ معاون وزیرخارجہ کیوں نہیں ہیں۔ یہ محض ایک تبصرہ ہے۔
میزبان: مجھے خوشی ہے کہ یہ صرف ایک تبصرہ ہی ہے۔
سوال:میرے سوال کا تعلق بھارت سے ہے۔بلاشبہ بھارت ایک اہم معاشی طاقت کے طور پر ابھرا ہے جس نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو میں شرکت سے انکار کیا ہے اور پاکستان میں سی پیک کے منصوبے کو ممکنہ طور پر اپنی گھیرا بندی کے طور پر لیا ہے جیسا کہ جنوبی ایشیا ء کے بعض ممالک میں بندرگاہوں کے ممکنہ فوجی استعمال کی صورت میں ہوا ہے۔
میں تزویراتی گھیراؤ کے بارے میں بھارتی تشویش کے پیش نظر پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ کیا آپ مذکورہ محرکات پر تبصرہ کرسکتی ہیں اور شاید اس پر بھی کہ اس حوالہ سے نئی دہلی حکومت کے ساتھ کیسے تعاون کرتے ہیں۔ شکریہ
سفیر ویلز: شکریہ۔ سامعین میں فلبرائٹر کی موجودگی بہت خوشگوار ہے ، ہمیں فلبرائٹ پروگرام پر کافی فخر ہے۔ یہ ہمارا سب سے بڑا فلبرائٹ پروگرام ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ میں باہمی افہام تفہیم کے حامل افراد کی کھیپ تیار ہوئی ہے۔ مجھے آپکی یہاں موجودگی پر خوشی ہے۔ بلوچستان دلچسپ ہے کیونکہ بلوچستان میں تنازعات واقع ہوئے ہیں اور متعدد بار گوادر بندرگاہ کی تعمیر پر احتجاجی مظاہرے بھی، در اصل یہ ان بڑے تعمیری منصوبوں سے منسلک تنازعات کی بلند ہوتی ہوئی صدائیں ہیں جو مقامی عوام سے رابطہ کے فقدان کا نتیجہ ہے ، اور آپ کی پاس کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی ( معاشرتی ذمہ داری برائے تجارت) پر عملدرآمد نہیں ہے جس کی ہماری تمام بڑی کمپنیاں تعمیر و خرید- لوگوں اور شراکتداروں کے درمیان حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور یقینی بناتی ہیں کہ مقامی لوگ منصوبوں سے بذات خود مستفید ہونے کا احساس حاصل کریں۔ اور گوادر بندرگاہ سے وابستہ متعدد پیچیدگیاں بشمول اب چینیوں کو عرصہ دراز تک دی گئی لیز، یہ سوال کہ منافع کو پاکستان اور چین کے درمیان کیسے تقسیم کیا جائے گا۔ یہ سب حقیقت پر مبنی سوالات ہیں جو سول سوسائٹی اور میڈیا کو پوچھنے اور ان پر روشنی ڈالنی چاہیے۔
ہم ظاہر ظہور لکیر کھینچتے ہیں کیونکہ ہم سوال اور مباحثہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہم لکیر کھینچنے میں بہت واضع رہے ہیں کہ ہم تشدد کی حمایت نہیں کرتے۔ اور جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے وابستہ چینیوں کے خلاف متعدد حملے کرنے کی پاداش میں امریکہ نے بلوچستان لبریشن آرمی کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا۔
میرے خیال میں گوادر تاریخی مثال ہے۔ یہ بھارتی تشویش میں اضافہ کا باعث بھی ہے کیونکہ گوادر کی تعمیر کے تجارتی مقاصد واضع نہیں ۔ یہ منصوبہ طویل عرصہ سے زیر تعمیر ہے تاہم بیرونی لوگوں کے لیے بالکل بھی واضح نہیں ہے کہ اس کا اقتصادی جواز کیا ہے۔
میرے خیال میں بھارت کا مؤقف آغاز سے ہی واضح ہے کہ انہوں نے ون بیلٹ ون روڈ کی نوعیت کو علاقائی سیاسی تناظر میں ہی دیکھا ہے۔ جن منصوبوں کی تعمیر کا معاشی بنیاد نہ ہو اور ان کا نتیجہ قوموں کی خودمختاری پر سودیبازی کی صورت میں ہو ، تو ہم اُ ن کے بارے میں بھارت کی تشویش سے متفق ہیں۔
سری لنکا واحد ملک نہیں جس نے مؤثر طریقہ سے کلیدی اثاثہ پر خود مختاری کو مکمل طور پر حوالہ کردیا ہے۔ آپ کے پاس تاجکستان کی اطلاع بھی ہوگی کہ جہاں پر بے تہاشا قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے زمینوں کی لین دین کی گئی۔ یہ ہی اصل مسئلہ ہے۔
میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ آپ ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف کو چاہے جتنا بھی ناپسند کرتے ہوں ، لیکن وہ شراکتدار ممالک سے کچھ بھی ۹۹ سال کی لیز پر نہیں لیتے اور نہ ہی ان کی خودمختاری سلب کرتے ہیں۔ تو آئیں کثیرالجہتی اداروں کی جانب سے مذاکراتی میز پر رکھے جانے والے شرائط اور اُن کے مقابلہ میں نافذ ہونے والے کچھ منصوبوں کے بارے میں واضع مؤقف اختیار کریں۔
میرے خیال میں ہم بھارت کے ساتھ ایک نئے چار فریقی "کواڈ” طرز پر مؤثر انداز میں کام کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ درحقیقت ، ہم خیال ممالک کے ساتھ بیٹھنا انتہائی مؤثر قدم ہے۔ آسٹریلیا، جاپان، بھارت اور امریکہ کا ساتھ بیٹھ کر دنیا کے معاملات پر غور، اور ہم اس میں کافی مصروف عمل ہیں، ہم ایک دوسرے کے اقدامات کی توثیق کر رہے ہیں، یہ ملینیم چئلینج کارپوریشن میں سمائے ہوئے سرحد پار تعاون کے امکانات ہیں۔
میں "کواڈ” کے قیام سے لیکر ڈھائی سال اس کے ساتھ کام کرتی رہی ہوں، ہم نے حال ہی میں کواڈ کا پہلا وزارتی سطح کا اجلاس منعقد کیا۔
سفری ہدایت نامہ کے حوالہ سے یہ بات ہے کہ ہم ہر چھ ماہ بعد اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم پاکستان کی سلامتی صورتحال میں بہتری دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی اپنے سفری ہدایت نامہ میں عکاسی کر سکیں۔ ان میں سے بعض اقدامات کا اطلاق انتہائی ضرور ی ہے، جیسا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطالبات کا مکمل اطلاق دہشتگردی کی مالی معاونت کی روکتھام، دہشتگرد تنظیموں کے ارکان کے اثاثہ جات منجمند اور قانونی کارروائی کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اور جیسا کہ پاکستان ضروری اقدامات اٹھا رہا ہے تو اس کی امن و سلامتی کے پسمنظر اور مستقبل میں ہماری سفری ہدایات میں عکاسی کی سکتی ہے۔
میزبان: ایلس، میرے خیال میں ہم ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت لے چکے ہیں۔ میرے خیال میں شاید ابھی بھی بے شمار سوالا ت ہیں لیکن شاید آپ رخصت چاہتی ہیں۔لگتا ہے کہ اب تو آپ کی آواز بھی جواب دے رہی ہے۔
سفیر ویلز: آپ سب بہترین سامعین ہیں۔ آپ سے گفتگو کرکہ کافی اچھا لگا۔
میزبان: سامعین یہ کتنی نہ بہترین مقرر ہیں ۔ آپ سب کی تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ۔
###