وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے شمالی کوریا پر ہونے والے وزارتی اجلاس میں۔

 

وزیرخارجہ ٹِلرسن: جنابِ سیکرٹری جنرل، مفید ترین بریفنگ کے لیے آپ کا شکریہ۔ اب میں امریکہ کے وزیرخارجہ کی حیثیت سے ایک بیان دوں گا اور سلامتی کونسل سے خطاب کا موقع دینے پر میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2321 کے مطابق، اِس کونسل کا بیان کردہ ایک مقصد شمالی کوریا کا جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کے پروگراموں سے دستبردار ہونا ہے۔

ان پروگراموں کو روکنے کے لیے گزشتہ 20 برسوں میں، نیک نیتی پر مبنی کی جانے والی سفارتی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اِن کو ختم کرنے کے بعد ہی، پورے شمال مشرقی ایشیا میں امن، استحکام اور اقتصادی خوشحالی آ سکتی ہے۔

شمالی کوریا یکے بعد دیگرے کیے جانے والے ہر دھماکے اور میزائل ٹیسٹ کے ساتھ، شمال مشرقی ایشیا اور دنیا کو عدم استحکام اور ایک وسیع تر تصادم کی طرف دھکیل رہا ہے۔

سیئول یا ٹوکیو پر شمالی کوریا کے جوہری حملے کا خطرہ، حقیقی ہے۔

اور ممکنہ طور پر شمالی کوریا کی امریکہ کی سرزمین کو نشانہ بنانے کی استعداد حاصل کرنے کی بات، اب صرف  وقت کا معاملہ ہے۔

بلا شک و شبہ، ڈی پر آر کے [شمالی کوریا] نے بارہا یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس قسم کے حملے کرے گا۔ اِس لفاظی کی موجودگی میں امریکہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا۔ اور نہ ہی شمالی کوریا کے میزائلوں کی زد میں آنے والے اس کونسل کے دیگر اراکین ایسا کر سکتے ہیں۔

کئی برسوں سے شمالی کوریا کا رویہ ایک ایسا طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے جو قراداد نمبر 2321 اور 2270 سمیت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کئی ایک قرادادوں کے منافی ہے اور یہ طرزِ عمل جوہری عدم پھیلاؤ پر ہونے والی عالمی پیش رفت کو ختم کرتا ہے۔ لہذا یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ شمالی کوریا موجودہ کثیرالجہتی پابندیوں کے ڈھانچے کے تحت اپنا رویہ تبدیل کرے گا۔

ایک طویل عرصے تک بین الاقوامی برادری شمالی کوریا سے نمٹنے کے لیے، ردعمل پر مبنی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ دن اب ختم ہونے چاہیئیں۔

دنیا کی سلامتی کے  سب سے اہم مسئلے پر اس وقت حرکت میں نہ آنے کی ناکامی کے تباہ کُن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور اِس کو دہرانا وقت کا تقاضا ہے: تزویراتی صبر کی حکمت عملی کے دن چلے گئے۔ مزید صبر کا واحد مطلب، جوہری شمالی کوریا کی قبولیت ہے۔

انتظار کا وقت جتنا لمبا ہوگا، اتنی ہی جلدی ہمارے ہاتھ سے وقت نکلتا جائے گا۔

بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر، ہم سب کے لیے شمالی کوریا پر اِس خطرناک راستے کو ترک کرنے کے لیے نیا دباؤ ڈالنے کا وقت آن پہنچا ہے۔

میں اِس کونسل پر زور دیتا ہوں کہ وہ عملی قدم اٹھائے، قبل اِس کے کہ شمالی کوریا ایسا کرے۔

ہمیں لازمی طور پر ایک نیا طرزِعمل اختیار کرنے اور شمالی کوریا کی حکومت پر ایک بڑھتا ہوا سفارتی اور اقتصادی دباؤ ڈالنے کے لیے اکٹھا مل کر کام کرنا چاہیے۔

جس نئی مہم کا امریکہ آغاز کر رہا ہے اِس کے محرکات ہماری قومی سلامتی کے معاملات ہیں اور اس کا بہت سی ایسی اقوام نے خیرمقدم کیا ہے جو خود اپنی سلامتی کے بارے میں فکرمند ہیں اور یہ سوال پوچھ رہی ہیں کہ شمالی کوریا اُن جوہری صلاحیتوں سے کیوں چِمٹا ہوا ہے جس کی اُسے کوئی ضرورت ہی نہیں۔

حکومت کی تبدیلی ہمارا مقصد نہیں ہے۔ نہ ہی ہم شمالی کوریا کے عوام کو دھمکانے یا ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہم نے جنوبی کوریا سے اپنے جوہری ہتھیار ہٹائے ہیں اور صورت حال میں کشیدگی کم کرنے اور تعلقات معمول پر لانے کے اپنے ارادے کے ثبوت کے طور پر شمالی کوریا کو امداد کی پیش کش کی ہے۔ 1995ء کے بعد سے اب تک، امریکہ نے  شمالی کوریا کو ایک ارب تیس کروڑ ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی ہے اور ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ  جیسے ہی ڈی پی آر کے اپنے جوہری ہتھیاروں اور میزائلوں کے پروگراموں کو ختم کرنا شروع کرے،  ہم  اُس کے لیے اپنی امداد  دوبارہ شروع کر دیں۔

ڈی پی آر کے اگر سلامتی، اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی شناخت حاصل کرنا چاہتا ہے اور جس کے لیے وہ کوشاں بھی ہے، تو یہ اُس کے  اپنے مفاد میں ہے کہ وہ جوہری اور میزائل کے پروگراموں کو لازمی طور پر ختم کرے۔ شمالی کوریا کو لازماً یہ سمجھنا چاہیے کہ نتائج سے لاپرواہی کے نتیجے میں احترام کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے قبل کہ ہم مذاکرات کے بارے میں سوچیں بھی، شمالی کوریا کو اُس خطرے کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے جو اِس کے ہتھیاروں کے غیر قانونی پروگراموں سے امریکہ اور اِس کے اتحادیوں کو لاحق ہے۔

میں تجویز کرتا ہوں کہ تمام اقوام آج سے مندرجہ ذیل تین اقدامات اٹھائیں:

سب سے پہلے، ہمارا اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک سے یہ کہنا ہے کہ وہ شمالی کوریا سے متعلق کیے گئے اپنے تمام وعدوں پر عمل درآمد کریں۔ اِن میں قرارداد نمبر 2321 اور 2270  کے وہ تمام اقدامات بھی شامل ہیں جو ابھی اٹھائے جانے ہیں۔

وہ ممالک جنہوں نے اِن قراردادوں کو مکمل طور پر نافذالعمل نہیں کیا وہ اِس ادارے کے بارے میں کلی طور پر بےاعتباری پیدا کر رہی ہیں۔

دوسرے، ہمارا تمام ممالک سے یہ کہنا ہے کہ وہ یا تو شمالی کوریا کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معطل کریں یا اِن کی سطح میں کمی لائیں۔ شمالی کوریا اپنے غیرقانونی جوہری اور میزائل ٹکنالوجی کے پروگراموں کی فنڈنگ کی خاطر سفارتی مراعات کا ناجائز استعمال کرتا ہے۔ اِس کی سفارتی سرگرمیوں کو محدود کرنے سے اس کے پروگراموں کے لیے درکار وسائل کا بہاؤ رک جائے گا۔ شمالی کوریا کی حالیہ کارروائیوں کے پیشِ نظر، ڈی پی آر کے کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات بالکل قابلِ قبول نہیں۔

تیسرے، ہمیں شمالی کوریا کی مالی تنہائی کو ہرصورت بڑھانا چاہیے۔ ہمیں لازماً ڈی پی آر کے کے ہتھیاروں اور میزائل کے پروگراموں کی مدد کرنے والے اداروں اور افراد پر نئی پابندیاں لگانا چاہیئیں اور اِس کے ساتھ ساتھ پہلے سے عائد کردہ تعزیروں کو سخت بنانا چاہیے۔ امریکہ کی پہلی ترجیح تو یہ ہوگی کہ متعلقہ ممالک اور لوگ اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کریں اور خود بخود اپنے رویے درست کریں۔ تاہم ہم ایسے ممالک کے اداروں یا افراد پر پابندیاں لگانے میں تامل نہیں کریں گے جو ڈی پی آر کے کی غیرقانونی سرگرمیوں میں مدد کرتے ہیں۔

ہمیں ایسے تجارتی تعلقات منقطع کرکے ڈی پی آر کے پر زیادہ سے زیادہ اقتصادی دباؤ ڈالنا چاہیے جن سے ڈی پی آر کے  کے جوہری اور میزائلوں کے پروگرام کی براہِ راست فنڈنگ ہوتی ہے۔ میرا بین الاقوامی برادری سے یہ کہنا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے مہمان محنت کشوں کے بہاؤ کو روکیں اور شمالی کوریا کی درآمدات، بالخصوص کوئلے پر پابندیاں عائد کریں۔

ہمیں اپنے اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔ شمالی کوریا کی 90 فیصد تجارت چین سے ہوتی ہے۔ صرف چین ہی ایک ایسا ملک ہے جسے پیانگ یانگ پر ایک منفرد نوعیت کا اثرو رسوخ حاصل ہے اور اسی وجہ سے چین کا کردار بہت اہم ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان اس مسئلے پر بہت بامقصد تبادلہِ خیالات ہوئے ہیں اور ہم مزید ایسے عملی اقدامات کے منتظر ہیں جو چین کے پہلے سے کیے جانے والے اقدامات کو آگے بڑھائیں۔

آخر میں، جیسا کہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں، مستقبل کی اشتعال انگیزیوں کا جواب دینے کے لیے ہمارے سامنے تمام راستے کھلے رہنے چاہیئیں۔ شمالی کوریا کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے، اگر ضروری ہوا تو فوجی کارروائی پر آمادگی ظاہر کر کے، طاقت کے سفارتی اور مالی وسائل کو تقویت پہنچائی جائے گی۔ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا، ہماری ترجیح ہے۔ تاہم شمالی کوریا کی جارحیت کے خلاف، ہم اپنا اور اپنے اتحادیوں کا دفاع کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔

دباؤ ڈالنے کی اس نئی مہم پر تیزی سے عمل درآمد کیا جائے گا اور یہ شمالی کوریا کے مفاد کے لیے نقصان دہ ہوگی۔

مجھے احساس ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کچھ ایسی اقوام شمالی کوریا پر دباؤ ڈالنے کے اِن اقدامات پر عمل درآمد کی جانب جھکاؤ نہ رکھتی ہوں جن کے کئی لحاظ سے شمالی کوریا کے ساتھ مثبت تعلقات ہیں۔

مگر شمالی کوریا کے کسی جوہری حملے کے تباہ کن اثرات تمام قسم کے معاشی فوائد پر بھاری ثابت ہوں گے۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم تلخ سچائیوں کا سامنا کریں اور مستقبل کے ہلاکت خیز نتائج کی روک تھام کے لیے فوری طور پر مشکل اقدامات کا انتخاب کریں۔

معمول کے مطابق فیصلے کرنے کا وقت اب نہیں رہا۔

اس مسئلے کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ تمام ممالک کو اب تک یہ علم ہو جانا چاہیے کہ شمالی کوریا کی حکومت کی مدد کا مطلب، ظلم اور مصائب ڈھانے میں مدد کرنا ہے۔

شمالی کوریا ایسے میں اربوں ڈالر اُس جوہری پروگرام پر جھونک رہا ہے جس کی اِسے ضرورت ہی نہیں، جبکہ اس کے اپنے لوگ فاقے کاٹ رہے ہیں۔

اس حکومت کا جوہری ہتھیاروں کا حصول اس کی سلامتی یا ظلم میں جکڑی ہوئی قوم کی فلاح کے مقاصد پورے نہیں کرتا۔

میرا قوموں کی برادری سے یہ کہنا ہے کہ وہ سلامتی کے تحفظ اور انسانی وقار کی حفاظت میں ہماری مدد کرے۔

امریکہ کے وزیرخارجہ کی حیثیت سے میرے پہلے دوروں میں شمار ہونے والے ایک دورے کے دوران میں نے ڈی ایم زیڈ کے اُس پار شمالی کوریا کی آسیب زدہ زمین کو دیکھا۔ سرحد کے اُس طرف ایک ایسی غمزدہ قوم آباد ہے جس کے لیے وقت تھم کے رہ گیا ہے۔ گوکہ دنیا پیانگ یانگ کی چمکدار عمارتیں دیکھتی ہے مگر جبر اور فاقوں کے سائے اس سرزمین پر 60 سال سے زائد عرصے سے چھائے ہوئے ہیں۔

گو کہ اس ملک کی موجودہ صورت حال گھمبیر ہے، اس کے باوجود امریکہ کو شمالی کوریا کے مستقبل پر یقین ہے۔ اگر اس کے مستقبل، خطے اور عالمی سلامتی کے حصہ دار ہمارے ساتھ شامل ہوں تو ایک پُر امید مستقبل کی جانب یہ پہلے قدم، انتہائی تیزی سے اُٹھنے لگیں گے۔

کئی برسوں سے شمالی کوریا اپنی خطرناک راہِ عمل کی شرائط مسلط کرتا چلا آ رہا ہے۔

ہمارے لیے یہ وہ لمحہ ہے جب ہم صورت حال کا کنٹرول دوبارہ اپنے ہاتھ میں لیں۔

ہمارا اِس کونسل کے اراکین اور دیگر تمام شراکت داروں سے کہنا ہے کہ وہ شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے اِس نئی تزویراتی حکمت عملی پر عمل در آمد کریں۔

شکریہ

میں کونسل کے صدر کی حیثیت سے اب اپنا منصب سنبھالتا ہوں اور جاپان کے امورِ خارجہ کے وزیر، عزت مآب فومیو کیشیدا کو خطاب کی دعوت دیتا ہوں۔

امریکہ کا محکمہِ خارجہ

ترجمان کا دفتر

28 ِاپریل 2017