اسلام آباد (۲۶ اگست ، ۲۰۱۵ء) – امریکی محکمہ زراعت کےزرعی تحقیقاتی سروس کے دو ممتاز سائنسدان رواں ہفتے امریکہ پاکستان کپاس کی پیداوار میں اضافے کے پروگرام کے سالانہ جائزے کے لیے اسلام آباد میں موجود ہیں ۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد کپاس کی پتہ مروڑبیماری کے وائرس پر تحقیق ، اس سے بچاؤ کے اقدامات اور مدافعت کے نئے ذرائع تلاش کرنا ہے۔پاکستان میں کاٹن کرل لیف وائرس پر تحقیق انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ وائرس پاکستان میں کپاس کی صنعت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کے ساتھ اس کی مستحکم معیشت اور غذائی تحفظ کے لیے بھی خطرہ ہے۔۔یہ متحرک پروگرام پاکستانی حکومت اور جامعاتی تحقیقی سہولیات کے کنسورشیم ، امریکی محکمہ زراعت اور خشک زمینوں میں زرعی تحقیق کے سنیٹر کا; بین الاقوامی اشتراک ہے-
اس پروگرام کے لیے امریکی محکمہ زراعت کے مرکزی سائنسدان ڈاکٹر برائن شیفلر نے اس پروگرام کے تحت اب تک ہونیوالی تحقیق کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس اشتراک کی بدولت کاشت شدہ کپاس میں مدافعت کے نئے طریقوں کی نشاندہی ممکن ہوئی ہے جس سے ایک طویل عرصے تک فصل کو محفوظ بنانے میں مدد کے ساتھ زیادہ پیداوار کا حصول ممکن ہو سکے گا۔ اسی پروگرام کے تحت سائنسی ٹیم پتہ مروڑبیماری کے وائرس کا تشخیصی ٹیسٹ بھی تیار کر رہی ہے جو اسی قسم کی علامات والی دوسری بیماریوں سے علیحدہ شناخت ممکن بنا سکے گا۔
کپاس کی پیداوار میں اضافے کے پروگرام کی رابطہ کار ڈاکٹر جوڈی شیفلر کا کہنا تھا کہ اب تک ہزاروں چھوٹے پاکستانی کاشتکار اس پروگرام کے تحت کپاس کی کاشت کے بہتر انتظامات پر ٹریننگ میں شرکت کر چکے ہیں ۔ ان اقداما ت سے فصل میں وائرس کی موجودگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی جس سے کپاس کی مدافعتی اقسام زیادہ عرصے تک موثر رہ سکیں گی۔
دونوں سائنسدانوں نے پاکستانی سائنسدانوں کی کاٹن کرل لیف وائرس کی مانیٹرنگ کے طریقوں اور پاکستانی زرعی تحقیقاتی اداروں میں باہمی تعاون کی بھی تعریف کی۔
زراعت پاکستان کا دوسرا بڑا شعبہ ہے جو خام ملکی پیداوارکا اکیس فیصد ہے ، سب سے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے اور افرادی قوت کاچھیالیس فیصد بھی اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ دیہی علاقوں میں بسنے والے باسٹھ فیصد پاکستانیوں کے لیے زراعت روزمرہ زندگی کا اہم حصہ ہے۔ امریکی محکمہ زراعت فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے پاکستانی سا ئنسدانوں اور کاشتکاروں کو اعانت فراہم کرتا ہے تا کہ معیشت کے اہداف اور غذائی تحفظ کے حصول کوممکن بنایا جا سکے۔ اس منصوبے کے لیے امریکی ادارے برائے بین الاقوامی ترقی نے بھی مالی معاونت فراہم کی ہے۔