صدر اوباما اور وزیراعظم نوازشریف کی ملاقات پر جاری ہونے والا مشترکہ اعلامیہ

صدر اوباما کی دعوت پر وزیراعظم نواز شریف نے 20 تا 23 اکتوبر 2015 امریکہ کا سرکاری دورہ کیا جس سے دیرینہ پاک امریکہ تعلقات ، ایک خوشحال پاکستان اور ایک مستحکم خطے کے لیے دونوں رہنماؤں کے عزم کو مزید تقویت ملی ہے۔ صدر اوباما اور وزیراعظم نوازشریف نے آج وہائٹ ہاؤس میں مختلف موضوعات پر سیرحاصل تبادلۂ خیال بھی کیا جس میں دونوں رہنماؤں نے جنوبی ایشیا میں ابھرتے ہوئے خطرات کا مشترکہ طور پر سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ پائیدار پاک امریکہ تعلقات کو جاری رکھنے کا بھی عزم کیا جو عالمی اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے ضروری ہے۔

دیرپا دوستی

صدر اوباما اور وزیراعظم نوازشریف نے یہ مشترکہ عزم بھی ظاہر کیا کہ جمہوریت سے وابستگی پاک امریکہ تعلقات کا کلیدی نکتہ ہے۔ صدر اوباما نے جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے وزیراعظم نواز شریف کے کردار کو بھی سراہا۔ انھی باہمی دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی خاطر صدر اوباما اور وزیراعظم نوازشریف نے انھیں صرف روایتی تحفظ اور سلامتی پر مرکوز رکھنے کے بجائے دونوں ملکوں کے درمیان دیگر شعبوں مثلاً تجارت، سرمایہ کاری، معاشی ترقی، تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی، سستی اور ماحول دوست توانائی کی پیداوار، ماحولیاتی تبدیلی، علاقائی تعلقات کے فروغ، قانون کی عملداری، عوامی سطح کے ثقافتی روابط اور جمہوری اصولوں کی پاسداری جیسے میدانوں میں بھی آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ صدر اوباما نے ایک بڑے جمہوری مسلم ملک کے طور پر امن و سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے پاکستان کے کردار کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ اس حوالے سے دونوں رہنماؤں نے اِن شعبوں میں بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک ڈائیلاگ یا مکالمے کو استعمال کرنے کا بھی عزم کیا۔

دونوں رہنماؤں نے عوامی سطح کے رابطوں اور اِس حوالے سے شروع ہونے والے تبادلوں کو فروغ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا اس تناظر میں باہمی تعلقات کے فروغ میں امریکہ میں رہنے والے پاکستانی نژاد امریکیوں کے کردار کی اہمیت کا بھی اعتراف کیا گیا۔

معاشی ترقی، تجارت اور سرمایہ کاری

دونوں رہنماؤں نے یہ بات بھی واضح کی کہ پاکستان کی معاشی ترقی خود اس کے اپنے باشندوں کی خوشحالی اور علاقائی سلامتی کے لیے مضبوط ترین بنیاد فراہم کرتی ہے۔ صدر اوباما نے پاکستان میں اصلاحات کے پروگرام کو بھی سراہا جس نے دوراندیش معاشی اور مالی پالیسیوں، شعبہ توانائی کی اصلاحات اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے ذریعے ملک میں معاشی استحکام بحال کیا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم نواز شریف نے معاشی بہتری جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت کا اصلاحات کا پروگرام جاری رکھنے کا عزم بھی دہرایا جس میں وہ داخلی معاشی اصلاحات بھی شامل ہیں جنھیں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی مالیاتی فنڈ اور دوسرے کثیرالقومی اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ دونوں فریقوں نے سٹریٹجک ڈائیلاگ کے ایک حصے کے طور پر بھرپور اقتصادی تعاون جاری رکھنے کا عزم بھی دوہرایا۔

دونوں رہنماؤں نے اس پر اتفاق کیا کہ پاکستان اور امریکہ دونوں کا مفاد باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ سے وابستہ ہے۔ صدر اوباما نے عندیہ دیا کہ امریکہ تیزرفتار تجارت اور ترقی کے ذریعے ہونے والی معاشی بڑھوتری کے لیے موافق حالات پیدا کرنے میں پاکستان کی مدد کرے گا۔ دونوں لیڈروں نے اس حوالے سے جی ایس پی پروگرام اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے فریم ورک معاہدے کی منظوری اور اہمیت کا بھی اعتراف کیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اسی حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار اور سب سے مؤثر طریقے کے طور پر امریکی منڈیوں تک پاکستانی مصنوعات کی بہتر رسائی کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ دونوں لیڈروں نے وزیراعظم نواز شریف کے دو برس پہلے کے دورے میں طے پانے والے مشترکہ ایکشن پلان کی کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے اِسے مزید مؤثر بنانے پر بھی گفتگو کی۔

صدر اوباما نے بتایا کہ امریکی قوانین کے مطابق اب پاکستانی ادارے بھی افغانستان میں کارروائیوں کے لیے پینٹاگون کے سودوں کے لیے درخواستیں دے سکیں گے۔ انہوں نے عالمی ادارہ تجارت کے جنرل پروکیورمنٹ معاہدے میں شمولیت کے لیے بھی پاکستان کی حوصلہ افزائی کی۔ دونوں فریقوں نے اسی تناظر میں پچھلے سال پاکستان اور امریکہ کے درمیان خواتین کی معاشی بہتری کے لیے طے پانے والے میمورینڈم آف انڈرسٹینڈنگ کی اہمیت کا بھی اعتراف کیا۔ یہ یادداشت پاک امریکہ خواتین کونسل کی کوششوں سے طے پائی تھی۔

خطے میں خوشحالی کے فروغ کے لیے دونوں رہنماؤں نے علاقے کے ملکوں کے درمیان معاشی رابطے بڑھانے کی اہمیت کا بھی اعتراف کیا۔ صدر اوباما نے پاک افغان معاہدہ راہداری، وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان بجلی کی ترسیل اور تجارت کے کوریڈور کے منصوبے اور ترکمانستان تا انڈیا گیس پائپ لائن کے منصوبوں کے لیے امریکی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے یقین دلایا کہ امریکہ علاقائی تعاون کی خاطر پاکستان اور اِس کے پڑوسیوں کے درمیان روابط کی حمایت جاری رکھے گا۔

تعلیم اور سول سوسائٹی کی سطح پر تعاون

صدر اوباما اور وزیراعظم نواز شریف نے بنیادی اور اعلٰی تعلیم کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی قدروقیمت کو اجاگر کیا۔ اسی تناظر میں پاکستان اور امریکہ نے دونوں ملکوں کے سٹریٹجک ڈائیلاگ کے تحت تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی پر ورکنگ گروپ کو نہ صرف بحال کیا بلکہ زراعت، توانائی اور آبی تحقیق کے شعبوں میں اعلٰی تعلیم کے تین یونیورسٹی سینٹر بھی بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ تینوں سینٹر دونوں ملکوں کی جامعات کے درمیان پہلے سے فعال شراکت داری کے انیس پروگراموں اور پوری دنیا میں سب سے بڑے فل برائٹ سکالر شپ پروگرام کے علاوہ ہوں گے۔

ان سینٹروں کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے اِس برس جون میں قائم ہونے والے پاک امریکہ نالج کوریڈور کو سراہا اور اپنی اپنی حکومتوں کو ہدایت کی کہ پاکستان کے سن دو ہزار پچیس کے لیے ترقیاتی منصوبے کی ترجیحات کے تناظر میں اس اہم شعبے میں تعاون بڑھایا جائے۔ فوری طور پر امریکہ نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کے سمجھوتے کے تحت مشترکہ فنڈنگ کو دوگنا کرنے کا عندیہ بھی دیا۔

بنیادی تعلیم کے شعبے میں تعاون کو سراہتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے پاکستان میں بچیوں کی تعلیم کے لیے امریکہ کے عالمی پروجیکٹ کے پاکستان میں اجراء کا بھی خیرمقدم کیا۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں دو لاکھ لڑکیوں کی تعلیم اور سکول تک رسائی اور ایک کامیاب زندگی کے دوسرے لوازمات مہیا کیے جائیں گے۔

صدر اوباما نے پاکستان میں پچھلے دو برسوں میں تعلیمی بجٹ کو دوگنا کرنے اور آئندہ تین برسوں کے دوران تعلیم پر اخراجات کو جی ڈی پی کے دو فیصد سے بڑھا کر چار فیصد تک لانے جیسے اقدامات اور وزیراعظم نواز شریف کی تعلیم کے لیے کوششوں کو بھی سراہا۔

دونوں رہنماؤں نے ایک جمہوری معاشرے کی بنیادی مضبوطی اور استحکام میں سول سوسائٹی کے کردار کی اہمیت کا بھی اعتراف کیا۔ عالمی غیرسرکاری تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے گروپ پاکستان کے قومی اہداف کے حصول اور پیچھے رہ جانے لوگوں کی فلاح و بہبود ، انسانی حقوق کے تحفظ اور جمہوری انتظام بہتر بنانے میں مددگار ہوسکتی ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے بتایا کے عالمی غیرسرکاری تنظیموں یا این جی اوز کے لیے حال ہی میں جاری کیے گئے حکومت ِ پاکستان کے قواعد ان تنظیموں کی کارکردگی بہتر بنانے میں مددگار ہوں گے۔ صدر اوباما نے کہا کہ این جی اوز کے لیے قواعد بین الاقوامی پیمانوں کے مطابق اور شفاف ہونے چاہئیں تاکہ ان اداروں کے اہم کام میں اِن کی مدد کی جا سکے۔

ماحولیاتی تبدیلی اور توانائی کی پیداوار

صدر اوباما نے توانائی کے شعبے میں امریکی تعاون کا اعادہ کیا اور دونوں رہنماؤں نے سٹریٹجک ڈائیلاگ کے تحت امریکہ اور پاکستان کے درمیان صاف توانائی کے ایک نئے ورکنگ گروپ کے قیام کا اعلان کیا جس کا بنیادی کام پاکستان کے شعبہ توانائی میں پیداوار اور ترسیل دونوں میدانوں میں امریکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا۔ اس شراکت کے تحت پاکستان اور امریکہ توانائی کے شعبے میں مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاری کے فروغ، ماحول دوست توانائی میں سرمایہ کاری کے طریقے وضع کرنے، ترسیل کے مخصوص منصوبوں میں توسیع کی سرمایہ کاری اور قدرتی گیس، پانی ، ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں ترقیاتی مالی مدد کا انتظام کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ دونوں رہنماؤں نے پاکستان میں تیل اور قدرتی گیس کے شعبوں کو ترقی دینے میں امریکی کردار کو بھی قابل تحسین پایا۔ صدر اوباما نے دیامر بھاشا اور داسو ڈیموں کے لیے فنڈ حاصل کرنے کی پاکستانی کوششوں میں مدد کا بھی یقین دلایا۔

صدر اوباما اور وزیراعظم نواز شریف نے اس برس دسمبر میں پیرس میں تحفظ ماحول کے مذاکرات میں ایک جامع سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے مشترکہ کوششوں کا بھی عزم کیا۔ دونوں ملکوں نے اِس بات کا خیرمقدم کیا کہ امریکہ نے اس ضمن میں اپنے لیے طے ہونے والے حصے کی ادائیگی کا بھی عندیہ دے دیا ہے جبکہ پاکستان بھی جلد ہی ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے کم کاربن خارج کرنے والی معیشتوں کے لیے طویل المدتی کوششوں کا عزم دوہرایا اور اِس حوالے سے ترقی پذیر ملکوں کے لیے ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر مستقل اور بھرپور مالی مدد کا عہد بھی کیا۔

ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے جیسے اہم ترین مقصد کے لیے دونوں ملکوں نے اپنے اپنے طور پر اسی برس مونٹریال کے ماحولیاتی معاہدے میں ترمیم کی کوششیں کرنے کا وعدہ کیا جس کے تحت ہائیڈروفلورو کاربن مواد کی پیداوار کم کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ دونوں فریقوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے طریقوں کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ پاکستان اس تبدیلی کے باعث ہونے والی خشک سالی، تواتر سے آنے والے سیلابوں اور گرمی کی لہر سے متاثرہ ملکوں میں بھی شامل ہے۔ صدر اوباما نے اس حوالے سے پاکستان میں قدرتی آفات کے شکار لوگوں کی ہرممکن مدد کا بھی یقین دلایا۔

صحت کا عالمی فروغ

صدر اوباما اور وزیراعظم شریف نے متعدی بیماریوں کی تشخیص ، روک تھام اور علاج کے جانچنے کے طریقوں کی اہمیت کا بھی اعتراف کیا۔ اس بارے میں شراکت داری جاری رکھنے کا بھی عزم دوہرایا گیا جس کے تحت گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی ایجنڈے کا مکمل نفاذ کیا جانا ہے اور اس کے اہداف کے حصول کے لیے ایک پانچ سالہ منصوبہ بنایا جانا ہے تاکہ صحت کے شعبے میں عالمی ادارہ صحت کے اہداف کے حصول کے لیے عالمی سطح پر تعاون بڑھایا جاسکے اور یوں قدرتی اور حیاتیاتی خطرات کا تدارک کیا جاسکے۔

انسداد دہشت گردی اور علاقائی سلامتی

صدر اوباما نے گزشتہ برس دسمبر میں پشاور کے سکول پر تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد حملے کی مذمت کی جس میں ایک سو چالیس بچے مارے گئے تھے۔ دونوں رہنماؤں نے انسداد دہشت گردی انتہا پسند متشدد گروپوں کے خلاف تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ صدر اوباما نے گزشتہ کئی برسوں میں پاکستان کے عوام، قانون نافذ کرنے والےاداروں اور فوج کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف دی گئی قربانیوں کو بھی سراہا۔ صدر اوباما نے القاعدہ اور اُس سے وابستہ گروپوں کو نیست نابود کرنے میں پاکستانی کردار کو خصوصاً سراہا اور کہا کہ اسی شراکت کی بدولت القاعدہ اور اُس کے ذیلی گروپوں کی صلاحیت کو ختم کرکے اُن ارادوں کو ناکام بنایا گیا ہے جس سے امریکی زمین پر حملوں کے کئی منصوبے بھی ناکام ہوئے ہیں۔ امریکی صدر نے آپریشن ضرب عضب میں پاکستانی فوج کی جانی قربانیوں کو خاص طور پر قابل تحسین قرار دیتے ہوئے یہ بھی نوٹ کیا کہ نہ صرف اس طرح اِن مسلح گروپوں کی دہشت گرد حملے کرنے اور منصوبہ بندی کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے بلکہ اس ضمن میں پاکستان کے قومی ایکشن پلان کے تحت مزید اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ صدر اوباما نے پورے خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے اور ہر شکل میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا تدارک کرنے کے لیے بھی مشترکہ عزم دوہرایا۔

دونوں رہنماؤں نے افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان ایک ایسے امن عمل کے لیے بھی حمایت کا اعادہ کیا جس کی قیادت امن اور مفاہمت کے نقطۂ نظر سے خود افغانوں کے ہی ہاتھ میں ہو۔ انھوں نے افغان طالبان کی قیادت پر پائیدار امن کی خاطر براہ راست مذاکرات کے لیے بھی زور دیا۔

اوباما انتظامیہ نے اس برس جولائی میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان پہلے باضابطہ مذاکرات کا اہتمام کرنے میں پاکستانی کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان مذاکرات سے مفاہمتی عمل کے لیے پاکستانی سنجیدگی کا بھی اظہار ہوتا ہے جس سے افغانستان میں شورش اور تشدد کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ملک کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے کے تمام ملکوں پر بھی یہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

دونوں رہنما اس پر بھی متفق تھے کہ علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے پاک افغان سرحد کے آرپار حملوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ پاکستانی وزیراعظم نے اُن اقدامات کا بھی ذکر کیا جو پاکستان یہ یقینی بنانے کے لیے کررہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک سمیت طالبان کا کوئی بھی دھڑا پاکستان کو اپنی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ کرسکے۔ صدر اوباما اور وزیراعظم نواز شریف نے پاک افغان سرحد کا مربوط انتظام چلانے اور افغان مہاجرین کی واپسی کو بھی سیکیورٹی کے لیے کلیدی قرار دیا۔

دونوں رہنماؤں نے لائن آف کنٹرول پر تشدد پر تشویش ظاہر کی اور اعتماد کی بحالی کے لیے دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول اقدامات کی حمایت کا اعادہ بھی کیا۔ دونوں رہنماؤں نے ایک ایسے مستقل اور پائیدار امن مذاکراتی عمل کی اہمیت پر بھی زور دیا جس سے دونوں پڑوسیوں کے درمیان کشمیر سمیت تمام دیرینہ تنازعات کا حل پرامن طریقوں سے نکالا جاسکے اور جس سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان دہشت گردی کے حوالے سے تشویش بھی دور کی جاسکے۔ اس حوالے سے پاکستانی وزیراعظم نے اُن اقدامات کا بھی ذکر کیا جو اُن کا ملک اپنی عالمی ذمہ داریوں کے تحت لشکر طیبہ اور اُس کے ذیلی اداروں سمیت اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل دہشت گرد اداروں اور افراد کے خلاف اٹھا رہا ہے۔

نائن الیون کے بعد سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان کلیدی سیکیورٹی تعاون کی انسداد دہشت گردی کے لیے اہمیت کا اقرار کرتے ہوئے صدر اوباما اور وزیراعظم نواز شریف نے اس بات کو دوہرایا کہ علاقائی استحکام کے لیے یہ تعاون آئندہ بھی جاری رہے گا۔ دونوں رہنماؤں نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ خطے میں سرگرم انتہاپسند عسکری گروپوں کے خاتمے کی خاطر جنوبی ایشیا میں تمام پڑوسیوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہوگا۔

ساحل سے جنوبی ایشیا کے درمیان کے علاقے میں انتہا پسندی کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں دونوں رہنماؤں نے اس پر اطمینان کا اظہار بھی کیا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان دولتِ اسلامیہ یا داعش جیسے ابھرتے ہوئے گروپوں کے خلاف تعاون بھی جاری ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نے اس عزم کا بھی بھرپور اظہار کیا کہ دولت اسلامیہ یا داعش جیسے گروہوں کو پاکستان میں قدم جمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دونوں رہنماؤں نے اِن جیسے گروہوں کا نظریاتی میدان میں مقابلہ کرنے کا بھی عزم کیا۔

صدر اوباما نے دہشت گردوں کے ہاتھوں خطے میں یرغمال بننے والے امریکی شہریوں پر بھی اپنی تشویش ظاہر کی۔ پاکستانی وزیراعظم نے اس ضمن میں امریکی اور تمام دوسرے یرغمالیوں کی محفوظ واپسی میں ہرممکن پاکستان کردار کا عندیہ بھی دیا۔

دفاعی تعاون

صدر اوباما اور وزیراعظم نواز شریف نے حالیہ فوجی تبادلوں اور علاقائی سلامتی پر مشاورت سمیت دوطرفہ فوجی تعاون پر اطمینان ظاہر کیا اور محسوس کیا کہ اِس تعاون سے وجود میں آنے والے تعلقات پائیدار ثابت ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کے لیے امریکی سیکیورٹی تعاون کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشت گردی، شورش کے خاتمے، منشیات کی تجارت روکنے اور بحری سلامتی جیسے شعبوں میں دونوں ملکوں کا تعاون باہمی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے مزید مضبوط ہوگا۔ صدر اوباما نے آئی ای ڈیز کے خلاف پاکستان کی مثبت کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ان آلات سے پیدا ہونے والے خطرات کے لیے اِس تعاون کو جاری رہنا چاہیے۔ دونوں رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ ایک پرامن پاک افغان سرحد شورش، دہشت گردی اور آئی ای ڈیز کے خلاف کامیابی کے لیے اہم ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ دفاعی مشاورتی طریقہ کار دفاعی تعاون اور اِس کے لیے نئے طریقے ڈھونڈنے میں بہت اہم ہے۔

سائبر سیکیورٹی

اطلاعات اور مواصلات کی نئی ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کا اعتراف کرتے ہوئے صدر اوباما اور وزیراعظم نواز شریف نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سائبر سپیس کو محفوظ اور مستحکم بنانے کے لیے عالمی تعاون ضروری ہے۔ عالمی سیکیورٹی کے تناظر میں دونوں رہنماؤں نے ٹیلی مواصلاتی اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی پر اقوام متحدہ کے سن دو ہزار پندرہ کے ماہرین کے گروپ کی متفقہ رپورٹ کی بھی توثیق کی۔ دونوں لیڈروں نے پاک امریکہ سٹریٹجک تعلقات کے تحت سائبر ایشوز پر کثیرالملکی تعاون کی بھی حمایت کی۔

سٹریٹجک استحکام اور جوہری تحفظ اور سلامتی

صدر اوباما اور وزیراعظم نواز شریف نے جنوبی ایشیا میں سٹریٹجک استحکام کو باہمی مفاد میں قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام فریقوں کو اس حوالے سے انتہائی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے علاقائی توازن اور استحکام کی ضرورت کا بھی اقرار کیا اور جنوبی ایشیا میں تمام تصفیہ طلب معاملات کے لیے بلارکاوٹ اور پرامن مذاکراتی وسائل استعمال کرنے پر بھی زور دیا۔

صدر اوباما اور وزیراعظم نواز شریف نے جوہری دہشت گردی کے خطرے پر بھی تبادلۂ خیال کیا اور طرفین نے آئندہ برس صدر اوباما کی جانب سے بلائی جانے والی جوہری سربراہ کانفرنس کو کامیاب بنانے کی کوششوں کا بھی عزم کیا۔ صدر اوباما نے اس سربراہ کانفرنس کے ساتھ ساتھ جوہری توانائی کے عالمی ادارے اور دوسرے اداروں کے ساتھ پاکستانی تعاون کو بھی سراہا۔

اختتامیہ

دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور امریکہ کے مفادات کے لیے مل کر کام کرنے کا مشترکہ عزم دوہرایا۔ پاکستان پارٹنرشپ ایکٹ کے قانون کی بنیاد پر شروع ہونے والے عمل کے تحت سرکاری اور عوامی شعبوں میں جاری تعاون پر صدر اوباما نے یہ تعاون مستقبل میں بھی جاری رکھنے کا عزم دوہرایا۔ دونوں رہنماؤں نے اعتماد، باہمی احترام اور اکیسیویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ مشترکہ کوششوں سے کرنے کے ادراک کی بنیاد پر باہمی تعلقات کو کثیر جہتی ، مضبوط اور گہرا کرنے کا بھی عزم کیا ہے۔