صدر باراک اوباما
نیو یارک سٹی
20 ستمبر 2016
جیسے ڈلیور کی گئی
شکریہ۔ (تالیاں۔) یُسرا، ہمیں آپ پر انتہائی فخر ہے – محض اس زبردست تعارف کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کی زیادہ اہم وجہ آپ کی بہادری و مستحکم مزاجی اور وہ زبردست مثال ہے جو آپ ہر جگہ بچوں کے لیے سیٹ کر رہی ہیں، بشمول آپ کی آٹھ سالہ بہن کے، جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ اس کی نظر میں آپ ایک عظیم مثال ہوں گی۔ (تالیاں۔)
شام بخیر۔ جناب سیکرٹری جنرل اور دیگر مہمانانِ گرامی، ہم یہاں اس لیے اکٹھے ہوئے ہیں کیونکہ اس وقت دنیا بھر کے شہروں اور کھچا کھچ بھرے کیمپوں میں بہت سے خاندان ہیں — جیسے چاڈ میں دارفر سے آئے خاندان، لبنان میں فلسطینی، پاکستان میں افغان، ایکواڈور میں کولمبیئنز — جنہوں نے کئی سال — کچھ نے دہائیاں — پناہ گزین کے طور پر بسر کیے ہیں، جو راشن اور امداد پر گزارہ کر رہے ہیں اور جو سپنے دیکھتے ہیں کہ کسی دن، کسی طرح ان کا اپنا ذاتی گھر ہو گا۔
ہم یہاں اس لیے اکٹھے ہوئے ہیں کیونکہ اس وقت ایسی نوجوان لڑکیاں ہیں — یوسرا جیسی اور میری بیٹیوں جیسی — جو اتنی ہی بیش قیمت اور خداداد صلاحیتوں کی مالک ہیں جتنی کہ میانمار کی وہ 16 سالہ پناہ گزین جس سے میری ملاقات ملائیشیا میں ہوئی تھی — جنہیں بیوپاریوں کے ہاتھوں ناقابلِ بیان حد تک بُرے سلوک کا سامنا رہا ہے، جو کہ جدید دور کی غلامی کی طرح ہے، یہ وہ لڑکیاں ہیں جو راتوں کو دعائیں کرتی ہیں کہ کوئی شخص انہیں ان کی تکلیف سے نجات دلائے۔ ایسے لڑکے ہیں جو جنوبی سوڈان میں لڑائی، سنٹرل امریکہ میں تشدد، شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطی میں جنگوں سے بھاگے ہوئے ہیں، اور جو ایسے مجرموں کے رحم و کرم پر ہیں جو انہیں ٹرکوں یا عارضی طور پر تیار کردہ لکڑیوں کے بیڑوں میں ڈالتے ہیں اور جو دھوکہ باز سمندروں میں موت کا شکار ہو جاتے ہیں — جیسے شام کا ننھا ایلن کردی جو اپنی سرخ شرٹ اور نیلی پینٹ میں ایک ترکی ساحل پر اوندھے منہ بے جان پڑا ہوا تھا۔
ہم یہاں اس لیے اکٹھے ہوئے ہیں کیونکہ اس وقت ایسی مائیں ہیں جو اپنے بچوں سے الگ کر دی گئی ہیں — جیسے یونان کے ایک کیمپ میں پڑی وہ عورت جو اپنے خاندان کی تصویریں اٹھائے ہوئے تھی، فون پر اپنے بچوں کو روتا سنتی تھی، اور جس نے کہا تھا کہ "میرے بچے میری سانس ہیں۔۔۔میں ہر روز 10، 20، 30 دفعہ مرتی ہوں۔” ہم یہاں اس لیے اکٹھے ہوئے ہیں کیونکہ ایسے باپ ہیں جو بس ایک نئی زندگی شروع کرنا اور اپنے اہلِ خاندان کی کفالت کرنا چاہتے ہیں — جیسے شام کا رفائی ہیمو جس نے جنگ میں اپنی بیوی اور بیٹی کو کھو دیا، جس کو ہم نے امریکہ میں خوش آمدید کہا، اور جو کہتا ہے "میں ابھی بھی یہ سوچتا ہوں کہ میرے پاس موقع ہے کہ دنیا میں مثبت تبدیلی لا سکوں۔”
جناب سیکرٹری جنرل، ریاستوں اور حکومتوں کے سربراہان، مہمانانِ گرامی، خواتین و حضرات: جیسا کہ آپ نے ویڈیو میں دیکھا، ہم بڑے پیمانے پر مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ 65 ملین سے زیادہ لوگوں کو اپنے گھروں سے نکالا گیا ہے — اور یہ شرح جنگِ عظیم دوم کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ ان میں 21 ملین سے زیادہ وہ پناہ گزین ہیں جو اپنے ملکوں سے ایک سوٹ کیس یا اپنی کمر پر کپڑے لادے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں — سب کچھ اور ہر شخص کو چھوڑ کر جنہیں وہ کبھی جانتے تھے۔
اور آج میں یہاں ہوں — میں نے یہ سربراہی کانفرنس اس لیے بلائی ہے کیوںکہ یہ کرائسس ہمارے دور کا اور مشترکہ ایکشن کی ہماری صلاحیت کے انتہائی ہنگامی امتحانوں میں سے ایک ہے۔ سب سے پہلے تو یہ مخالفتیں ختم کرنے کی ہماری صلاحیت کا امتحان ہے، کیونکہ دنیا کے زیادہ تر پناہ گزین جنگ سے برباد ہوئے صرف تین ممالک سے آ رہے ہیں — شام، افغانستان اور صومالیہ۔
اور آج میں نے جنرل اسمبلی میں کہا کہ ہم کسی سزا کے بغیر تشدد کرنے کی اجازت دینے کی ذہنیت کو معاف نہیں کر سکتے۔ اور مجموعی طور پر، ہم نظر انداز کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ اس سربراہی کانفرنس کا موضوع نہیں ہے، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ، مثال کے طور پر، شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ اور ہم اس کو روکنے کی کوشش کرنے کے لیے اتنے متحد نہیں جتنا کہ ہمیں ہونا چاہیے۔
یہ ہمارے اس بین الاقوامی نظام کا امتحان ہے جس میں تمام قومیتوں کو ہماری مشترکہ ذمہ داریوں میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے، کیونکہ پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کی میزبانی صرف 10 ممالک کر رہے ہیں جو بہت بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں — ان میں ترکی، پاکستان، لبنان، ایران، اور ایتھوپیا شامل ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کے وسائل بہت سارے ان ممالک سے کم ہیں جو بہت کم یا کچھ بھی نہیں کر رہے۔
یہ ہماری مشترکہ سکیورٹی کا کرائسس ہے۔ اس لیے نہیں کہ پناہ گزین کوئی خطرہ ہیں۔ پناہ گزین، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، اکثر جنگ اور دہشت گردی سے بھاگے ہوئے ہیں۔ وہ مظلوم ہیں۔ وہ ایسے خاندان ہیں جوسلامتی چاہتے ہیں اور کام کرنا چاہتے ہیں، اچھے شہری بننا چاہتے ہیں اور اپنے ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں — میں یُسرا سے بات کر رہا تھا — وہ اب جرمنی میں ہے۔ وہ پہلے ہی تھوڑی بہت انگریزی بول لیتی تھی۔ اب وہ جرمن سیکھنے کی کوشش کر رہی ہے — جو اس معاشرے میں گھل مل جانا اور اس کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ پناہ گزین ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں امریکہ میں ہم نے انتہائی سخت سکریننگ اور سکیورٹی چیکس لاگو کرنے کے لیے کام کیا ہے، تاکہ ہم پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہہ سکیں اور اپنی سکیورٹی کو یقینی بنا سکیں — در حقیقت، پناہ گزینوں کو عام سیاحوں کی نسبت زیادہ سخت سکریننگ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہم نے امریکہ میں دیکھا ہے کہ محنت کش اور محب الوطن پناہ گزین ہماری فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں، اور نئے کاروبار شروع کر رہے اور کمیونٹیوں کو ترقی دینے میں مدد کر رہے ہیں۔
لہذا ہمارے معاشرے کے لیے خطرہ یہ ہے کہ جب بے تاب پناہ گزین پتھر دل بیوپاریوں کو محفوظ راستے کے لیے پیسے دیتے ہیں تو اس سے ان مجرموں کی مالی مدد ہوتی ہے جو ہتھیار، منشیات اور بچے سمگل کرتے ہیں۔ جب ایسی قوموں کو جو اپنی اندرونی مشکلات سے لڑ رہی ہوتی ہیں کئی سالوں تک بے شمار پناہ گزینوں کی میزبانی کرنا پڑتی ہے تو اس سے پہلے سے بھی زیادہ عدم استحکام کی صورتِحال سامنے آتی ہے۔ جب کچھ ملکوں میں بے ترتیب اور غیر متناسب قسم کی ہجرت ہوتی ہے جو ہماری سیاست کو خراب کرتی اور جذبات و احساسات سے کھیلنے والی خطابت کا باعث بنتی ہے تو اس سے اکثر ہمارے معاشرے میں ٹینشنز جنم لیتی ہیں۔
اور اگر ہم پناہ گزینوں کو محض ان کے پس منظر یا مذہب کی وجہ سے، یا مثال کے طور پر اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہیں، داخل ہونے سے روکتے ہیں تو اس سے ہم دہشت گردوں کے اس پروپیگنڈا کو تقویت بخشیں گے کہ میری قوم جیسی قومیں اسلام کے خلاف ہیں، جو ایسا بد نما جھوٹ ہے جسے کثریت اور افرادی امتیاز کی اقدار کو اپناتے ہوئے ہمارے تمام ممالک میں مسترد کرنا ضروری ہے۔
اور آخر میں، یہ کرائسس ہماری مشترکہ انسانیت کا امتحان ہے — ہم چاہیں تو شک اور خوف کا شکار ہو کر دیواریں کھڑی کر سکتے ہیں یا پھر خود کو دوسروں کی جگہ رکھ کر سوچ سکتے ہیں۔ وہ لڑکیاں جنہیں سمگل اور جن پر تشدد کیا گیا وہ ہماری بیٹیاں بھی ہو سکتی تھیں۔ ساحل پر پڑا وہ بچہ ہمارا بیٹا یا پوتا ہو سکتا تھا۔ ہم نہ تو اپنی آنکھیں پھیر سکتے ہیں اور نہ ہی پیٹھ موڑ سکتے ہیں۔ ان خاندانوں کے لیے اپنے دروازے بند کر دینا ہمارے لیے اپنی انتہائی اقدار سے کنارہ کشی کرنے کے مترادف ہو گا۔ یہ بحیثیتِ اقوم، بشمول ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے، اپنے اس ورثے سے انکار ہو گا جو مہاجرین اور پناہ گزینوں نے تشکیل دیا تھا۔ اور ایسا کرنا بہت سے اعتقادات کی اس مرکزی تعلیم کو نظر انداز کرنا ہو گا کہ ہمیں دوسروں سے وہی سلوک کرنا چاہیے جس کی توقع ہم ان سے رکھتے ہیں، اور یہ کہ ہم اجنبیوں کو اپنے درمیان خوش آمدید کہتے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جیسے ماضی میں ہماری طرف سے عمل نہ کرنا — مثال کے طور پر، نازی جرمنی سے بھاگ کر آنے والے یہودیوں کو دھتکار دینا — ہم سب کے ضمیر پر ایک داغ ہے اسی طرح اگر ہم نے اس وقت کوئی قدم نہ اٹھایا تو تاریخ ہم سے بڑی سختی سے پیش آئے گی۔
سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ پناہ گزینوں کا ہونا بڑی ناکامیوں کی علامت ہے — چاہے یہ جنگ ہو، نسلی کشیدگی ہو یا جور و ستم۔ اگر ہم واقعی اس کرائسس سے نمٹنا چاہتے ہیں تو شام میں بھرپا بربریت جیسی جنگوں کا خاتمہ کرنا لازمی ہے — اور اس کا خاتمہ سیاسی تصفیے اور ڈپلومیسی سے کیا جائے گا، نہ کہ بس بم برسا کر۔
ہمیں ترقی اور تعلیم اور ڈیموکریٹک اداروں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے پر اصرار کرنا ہو گا — جن کا نہ ہونا اس قدر عدم استحکام کا باعث بنتا ہے جو ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔ اور ضروری ہے کہ ہم انصاف اور برابری کے لیے آواز بلند کرتے رہیں، اور اصرار کریں کہ ہر شخص کے عالمگیر انسانی حقوق کا ہر جگہ تحفظ کیا جائے۔
اکثر ایک سنگین خبر محسوس ہونے والے اس بحران کے باوجود ہم دنیا بھر میں بہت سوں کے بہادرانہ کام کے شکر گزار ہیں۔ قائدین جو، اکثر اپنے ملک میں سیاسی مشکلات کے باوجود، پناہ گزینوں کو نئے پڑوسیوں کے طور پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ کاروبار، جیسے یہاں آنے سے قبل جن سے میں نے ملاقات کی، جنہوں نے پناہ گزینوں کو خودمختار بنانے کے لیے 650 ملین ڈالر سے زیادہ کے وعدے کیے۔ بین الاقوامی ادارے اور مذہبی گروہ اور غیر سرکاری تنظیمیں، بشمول انٹر ایکشن — امریکی غیر سرکاری تنظیموں کا اتحاد — جس کے اراکین دنیا میں گھر سے بے گھر ہونے والوں اور پناہ گزینوں کی معاونت کے لیے اگلے تین برس میں 1.2 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کریں گے۔
بطور امریکی ہم اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ [ریاستہائے متحدہ امریکہ] دنیا بھر میں انسانی امداد کا سب سے بڑا اکلوتا عطیہ کنندہ ہے، جس میں شام کے پناہ گزین اور لوگ بھی شامل ہیں۔ ہم کسی بھی دیگر ملک کے مقابلے میں زیادہ پناہ گزینوں کو دوبارہ بساتے ہیں۔ بطور صدر، میں نے پناہ گزینوں کی تعداد کو 85,000 تک بڑھا دیا ہے جو ہم امسال دوبارہ بسائیں گے، جس میں 10,000 شامی پناہ گزین شامل ہیں — ایک ایسی تعداد جسے اپنی سخت جانچ پڑتال کے باوجود ہم پار کر چکے ہیں۔ اور میں نے یہ سربراہ ملاقات اس لیے بلائی کہ ہم سب کو مزید کرنا ہے۔
میں ہمارے شریک میزبانوں سیکرٹری جنرل بان کی مون، اور اردن کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ اردن اس تنازعے کے نتیجے میں بہت بڑا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، اور ہم عزت مآب اور ان کے سرانجام دئیے گئے کام کے شکر گزار ہیں۔ میکسیکو، جو وسطی امریکہ سے بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو جذب کر رہا ہے۔ سویڈن، جس نے پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی کوششوں کے حوالے سے عظیم حصہ ڈالا ہے۔ جرمنی اور کینیڈا — دو ممالک جو پناہ گزینوں کو معاونت مہیا کرنے کے لیے سب سے آگے رہے ہیں۔ اور میں چانسلر میرکل اور وزیر اعظم ٹرُوڈو، اور ان دونوں ممالک کے لوگوں کا ذاتی طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں — چونکہ سیاست بعض اوقات مشکل ہو سکتی ہے، لیکن یہ درست کام تھا۔ اور ایتھوپیا جو، جیسا کہ ویڈیو میں ذکر کیا گیا، ضخیم بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔
میں حقیقی، ٹھوس وعدے کرنے پر اس سربراہ ملاقات میں حصہ لینے والے 50 سے زائد ممالک اور اداروں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ مجموعی طور پر ہمارے ممالک نے انسانی فلاح و بہبود کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ کی اپیلوں کے لیے چندے کو امسال تقریباً 4.5 ارب ڈالر بڑھا دیا ہے، اور اس میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے اس برس کیا گیا 1 ارب ڈالر کا اضافہ شامل ہے۔ یہ زندگی بچانے والے کھانے، اور ادویات، اور لباس، اور پناہ گاہوں کی جیس ٹھوس صورت میں ڈھلے گا۔
لیکن چونکہ ہم ایک ہی چیز ایک ہی انداز میں کرنا جاری نہیں رکھ سکتے — پناہ گزینوں کو معاشرے سے کٹ کر کیمپوں میں گھُلنے دینا — اس لیے ہم پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک کی معاونت کے لیے عالمی بینک کے ساتھ کام بھی کر رہے ہیں تاکہ انہیں سکول اور اقتصادی مواقع تعمیر کرنے کے لیے مالی سہولیات حاصل ہو سکیں۔ ان کوششوں کے ذیل میں ریاستہائے متحدہ امریکہ متوسط آمدنی والے ممالک کے لیے کم از کم 50 ملین ڈالر کی امداد دے گا، اور ہم کم آمدنی والے ممالک کی اور زیادہ مدد کریں گے تاکہ پناہ گزین اور ان کی میزبان آبادیاں پنپ سکیں اور مشترکہ طور پر مضبوط ہو سکیں۔ ایکواڈور اور کینیا جیسے ممالک میں موجود پناہ گزین اکثر حالیہ مہاجرین جتنی توجہ حاصل نہیں کر پاتے، لیکن انہیں بھی مدد کی ضرورت ہے۔ اور یہ یہاں ہمارے مقصد کا حصہ ہے۔
مجموعی طور پر ہمارے ممالک پناہ گزینوں کی تعداد کو تقریباً دوگنا کر کے 360,000 سے زیادہ کر رہے ہیں جو امسال ہم اپنے ممالک میں قبول کریں گے۔ ایک مرتبہ پھر، میں خصوصاً جرمنی، کینیڈا، آسٹریا، نیدر لینڈز، اور آسٹریلیا کو ان کے مسلسل قائدانہ کردار، اور اس کے ساتھ ساتھ ارجنٹائن اور پرتگال جیسے ممالک کو ان کے نئے وعدوں کے لیے خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔ اور آج میں یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ ہمارا یہ قائدانہ کردار جاری رکھے گا۔ اگلے ہفتے سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال میں ریاستہائے متحدہ امریکہ دنیا بھر سے 110,000پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہے گا اور دوبارہ بسائے گا — جو 2015 کے مقابلے میں تقریباً 60 فیصد اضافہ ہے۔ ہم اسے درست انداز میں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور ہم اسے محفوظ انداز میں کریں گے۔
مجموعی طور پر، ترکی، تھائی لینڈ، چاڈ اور اردن کے بڑے وعدے ایک ملین سے زائد پناہ گزین بچوں کو تعلیم کے حصول میں مدد دیں گے؛ ایک ملین پناہ گزینوں کو تربیت، نئی مہارتیں یا کام ڈھونڈنے میں مدد دیں گے۔ اور اس سارے کام میں ہم ان کو نہیں بھول سکتے جو غلط برتاؤ کی سب سے زیادہ زد میں ہیں — نوجوان لڑکیاں اور خواتین۔ چنانچہ ہماری کوششوں کا ایک کلیدی حصہ جنسی تشدد اور جبری شادیوں کو روکنے کا عزمِ نو ہونا چاہیئے۔ اور ہمیں خواتین اور لڑکیوں کو حقیقتاً بااختیار بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے — چونکہ ہر لڑکی پرورش پانے اور محفوظ رہنے کا موقع پانے کا حق رکھتی ہے، اور ہر خاتون کو اس کے انسانی حقوق اور عزتِ نفس حاصل رہنی چاہیئے۔
چنانچہ آج یہاں کیے جانے والے وعدوں نے میری حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ زندگیاں بچانے میں مددگار ہوں گے۔ لیکن ہمیں دیانت دار ہونے کی ضرورت ہے — یہ پھر بھی کافی نہیں ہے؛ اس درجے کے بحران کے لیے بالکل کافی نہیں ہے۔ اور اس لیے میرا خیال ہے کہ اس سربراہ ملاقات کو ایک نئی عالمی تحریک کا نقطہ آغاز بننا چاہیئے جہاں ہر کوئی زیادہ کام کرے؛ مزید ممالک اور زیادہ معاونت عطیہ کریں اور مزید پناہ گزینوں کو قبول کریں۔ مزید ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں امداد کی فراہمی کے لیے نئے راستے تلاش کریں۔ مزید کاروبار اپنی مہارتوں سے حصہ ڈالیں۔ مزید مذہبی گروہ اس کام کو اپنا کام بنا لیں۔ مزید نوجوان اقدام کا مطالبہ کریں۔ مزید ریاستیں اور شہر اور قصبے سامنے آئیں اور کہیں، ہاں، ہم اپنے ساتھی ضرورت مند انسانوں کے لیے اپنی آبادیوں کے دروازے کھولیں گے۔ اور ایسے ممالک پر مزید دباؤ جو اقتدار کے تعاقب، جس کا نتیجہ اتنی زیادہ انسانی جانوں کا ضیاع ہے، میں اپنے ہی شہریوں پر تشدد کا ارتکاب کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ہم ایک نوجوان لڑکے ایلکس، جو سکارڈسالے، نیویارک میں یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر رہتا ہے، سے سیکھ سکتے ہیں۔ پچھلے ماہ، ہم سب کی طرح ایلکس نے وہ دل شکن تصویر دیکھی — شامی شہر حلب کا پانچ سالہ عمران دقنیش، جو ایمبولنس میں بیٹھا ہے، گم صم اور صدمے سے چور، اپنے ہاتھوں سے خون صاف کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اور یہاں نیویارک میں ایلکس، جو چھ سال کا ہے، نے مجھے ایک خط لکھا۔ اور اس نے کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ عمران میرے اور میرے خاندان کے ساتھ آ کر رہے۔ ایلکس نے لکھا، "چونکہ وہ کھلونے نہیں لائے گا، اس لیے میں اپنی بائیک اس کے ساتھ بانٹ لوں گا اور میں اسے چلانا سکھاؤں گا۔ میں اسے جمع اور تفریق سکھاؤں گا۔ میری چھوٹی بہن اس کے لیے تتلیاں اور جگنو جمع کرے گی۔۔۔ ہم سب مل کر کھیل سکتے ہیں۔ ہم اسے ایک خاندان دیں گے اور وہ ہمارا بھائی ہو گا۔”
یہ ایک چھ سالہ بچے کے الفاظ ہیں۔ وہ ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے۔ (تالیاں۔)
ایک چھوٹا بچہ جو انسانیت دکھا سکتا ہے، جس نے دوسرے لوگوں کے وطن، ان کی وضع قطع، ان کے اندازِ عبادت کی وجہ سے ان سے بدخوئی، شک کرنا، یا ان سے خوفزدہ ہونا نہیں سیکھا، اور جو اپنے جیسے کسی دوسرے کے ساتھ صرف دردمندی سے، مہربانی سے بھرپور برتاؤ کا تصور ہی سمجھتا ہے — ہم سب ایلکس سے سیکھ سکتے ہیں۔ تصور کریں کہ ہم کتنی مصیبت کم کر سکتے ہیں، اور کتنی جانیں بچا سکتے ہیں، اور ہماری دنیا کیسی لگے گی، اگر دنیا میں کہیں بھی تکلیف کا شکار بچے کو دیکھ کر ہمیں کہیں، "ہم اسے ایک خاندان دیں گے اور وہ ہمارا بھائی ہو گا۔”
ہم، سیاست اور قیادت کے عمل میں ہم میں سے بہت سے، اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے پر بہت سارا وقت صرف کرتے ہیں۔ ہم اسے برقرار رکھنے پر وقت صرف کرتے ہیں؛ ہم عوامی رائے جیتنے کی کوشش میں وقت صرف کرتے ہیں۔ اور شاید کبھی کبھار ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ سب کرنے کی اکلوتی توجیہہ اس چھوٹے سے بچے کی مدد کرنا ہے۔ میں امید اور دعا کرتا ہوں کہ ہم یہ یاد رکھیں۔
میں آپ سب کی معاونت کی داد دیتا ہوں۔ آپ کا شکریہ۔ (تالیاں۔)
#